ماضی اور حال: تمام دانشوروں سے درخواست
یونانی فلسفی، سقراط ایتھنز کے شہر میں اپنے فلسفیانہ نظریات اور خیالات کے لئے بہت اچھی طرح جانے جاتے تھے- انہوں نے اپنی زندگی سادگی سے گزارنے کو ترجیح دی اور وہ پیدل ہی لوگوں سے بات چیت کرنے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے رہتے تھے-
وہ ہمیشہ بہت نرم دلی سے رہے اور انہوں نے کبھی بھی ان لوگوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی جن سے وہ سماجی اور سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے تھے- وہ سوالات پوچھ کر لوگوں کو بات چیت میں شامل کیا کرتے تھے- مثال کے طور پر ایک بار ان کی ملاقات ایک نوجوان شخص سے ہوئی جس سے انہوں نے پوچھا "کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ روٹی کہاں ملے گی؟" نوجوان شخص نے انہیں بتایا کہ گلی کے کونے میں ایک دوکان ہے جہاں سے انہیں روٹی مل جائے گی- سقراط نے دوبارہ اس سے پوچھا "مجھے پینے کے لئے کہاں سے ملے گا؟" نوجوان نے جواب میں انہیں بتایا کہ روٹی کی دوکان کے برابر ہی میں ایک اور دوکان ہے جہاں سے انہیں اپنی مرضی کے مطابق پینے کے لئے بھی مل جائے گا- اس کے بعد، سقراط نے پوچھا "اے نوجوان، مجھے بتاؤ کہ میں نیکی یا پاک دامنی کہاں سے خرید سکتا ہوں؟" اس سوال نے نوجوان کو بھونچکا کر کے رکھ دیا اور وہ کوئی جواب نہ دے سکا جس پر سقراط نے اس سے کہاں "آؤ میرے ساتھ، میں تمہیں اس کے بارے میں بتاتا ہوں"- اس ابتدائی گفتگو کے بعد، انہوں نے اس نوجوان کو اخلاقی قدروں، نیکی اور پاک دامنی کے بارے میں سمجھایا- اس طریقے سے وہ تبلیغ کرتے تھے اور علم بانٹتے تھے-
سقراط کی توجہ اخلاقیات پر تھی اور یہ کہ معاشرے کو کیسے نیک بنایا جائے- انہوں نے اپنے خیالات کو کبھی بھی نہیں لکھا بلکہ انہوں نے لوگوں کو سوالات پوچھنے کی ہمت افزائی کر کے منطق سے سمجھانے کی کوشش کی- اپنی تعلیمات کے لئے انہوں نے اپنے امیر سرپرستوں اور شاگردوں سے بھی کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیا- وہ دلیل دینے والوں سے بھی اختلاف کرتے تھے جو کہ ریلیوسٹ (RELAVISTS ) تھے اور جو روایات کے تسلسل پر یقین نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی انہوں نے اخلاقی قدروں کو وقت کی ایک پروڈکٹ مانا-
سقراط کی دلیل یہ تھی کہ اگر انسانی فطرت اچھی طرح باخبر اور باعلم ہے تو اس کا رجحان نیک اعمال کی جانب ہونا چاہئے- ان کا عظیم کام یہ تھا کہ انہوں نے فلسفے کو انسانی معاشرے کی بہتری کے لئے وقف کر دیا- تاہم ایتھنز کا معاشرہ، سقراط اور اخلاقی و سماجی مسائل پر ان کے سوالات کو برداشت نہ کر سکا- وہاں کے لوگوں نے ان پر نوجوانوں کے ذہنوں کو کرپٹ کرنے اور خداؤں کے وجود سے انکار کا الزام لگایا- جیوری کی اکثریت نے انہیں موت کی سزا سنائی- انہوں نے اس فیصلے کو بڑے حوصلے سے قبول کیا اور سکون کے ساتھ مر گئے- ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ لوگ جنہوں نے ان پر الزام لگایا تھا آج تاریخ میں ان کا نام و نشان تک نہیں جبکہ اپنی موت کے اتنے عرصے بعد بھی سقراط کا نام زندہ ہے-
معاشرتی انحطاط کے دہانے پر ہمیں بڑا سوچنے کے لئے سقراطی اپروچ کی ضرورت ہے-
ہمارے معاشرے کے کیس میں، ہمیں اس وقت اخلاقی گراوٹ اور نیک اقدار کی کمی کا سامنا ہے- اس کے نتیجے میں مجرمانہ سرگرمیوں پر کوئی روک ٹوک نہیں- وہ جو بے ایمانی اور غلط طریقے استعمال کر سکتے ہیں، وہ لوٹ مار، استحصال اور ذخیرہ اندوزی سے معاشرے میں اونچا مقام حاصل کر لیتے ہیں- اخلاقی قدروں کی غیر موجودگی میں، فراڈ کرنے میں کسی کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں اور نہ ہی انسانی عزت و وقار کی کوئی اہمیت رہ گئی ہے-
وہ لوگ جنھیں اس بات کا احساس ہے کہ معاشرہ تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو رہا ہے ان کا ماننا ہے کہ معاشرے کو بچانے کے لئے محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور محمد غوری جیسے فاتحین کی ضرورت ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی برائیوں کا علاج صرف ماضی کے ہیروز کی طرح، فاتحین ہی کر سکتے ہیں اور لوٹ مار اور دولت جمع کرنے سے ہی ممکن ہے- ان کی یہ فاتحین والی خواہشات ہماری نصابی کتابوں میں موجود سیاستدانوں کی پرجوش تقریروں اور نعروں سے پوری ہوتی رہتی ہے، جن پر عمل کرنے کے لئے نوجوانوں کو انسپریشن ملتی ہے- ان تعلیمات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب فتح کرنے کے لئے دوسرے ملک موجود نہیں تو وہ اپنے ہی ملک کو فتح کرنے اور اپنے ہی لوگوں کو دبانے کے رستے پر چل پڑتے ہیں جیسا کہ ملٹری ڈکٹیٹرشپ اور جاگیردارانہ اور قبائلی جمہوریت میں ہوتا ہے جب لیڈر فاتحین دکھتے ہیں اور لوگوں کو ختم کیا جاتا ہے-
افسوس کی بات ہے کہ سقراط جیسے فلسفیوں کی کوئی خواہش بھی باقی نہیں رہی جو لوگوں کو علمی اعتبار سے روشن کرسکیں اور انہیں اس بات پر انسپائر کر سکیں کہ اگر وہ اخلاقی قدروں پر عمل کریں گے تو معاشرہ پرامن اور خوشحال ہو گا- جب کبھی بھی فاتحین اور دانشوروں کا تقابل ہوتا ہے تو ہمارے معاشرے میں ترجیح فاتحین ہی کو دی جاتی ہے- دانشوروں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لئے محدود جگہ ملتی ہے لہٰذا معاشرہ دن بدن بگڑتا جا رہا ہے اور خود کو بچانے کی خواہش بھی دم توڑتی جا رہی ہے- اگر سقراط ہماری موجودہ صورتحال کو دیکھ پاتے تو وہ ایک بار پھر زہر کا پیالہ پی کر موت کو گلے لگائے لینے کو ترجیح دیتے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
تبصرے (3) بند ہیں