• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

پاکستانی رمضان

شائع July 5, 2014
ہم نے کبھی دین کو اپنے پیٹ پالنے کے لئے بیچا، کبھی دوسرے کا پیٹ کاٹنے کے لئے بیچا.
ہم نے کبھی دین کو اپنے پیٹ پالنے کے لئے بیچا، کبھی دوسرے کا پیٹ کاٹنے کے لئے بیچا.

دنیا کے تمام ملکوں میں مذہبی تہوار بڑے جوش و جذبے سے مناۓ جاتے ہیں. خوب عبادات ہوتی ہیں.

ہندو مذہب میں "نوراتری" بڑے جذبے سے منائی جاتی ہے اس تہوار کے موقعے پر ہندو مذہب کے لوگ روزے رکھتے ہیں، پرشاد بانٹتے ہیں، دکانوں اور بازاروں میں اشیاۓ خورد و نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی دیکھنے کو ملتی ہے. دیگر اشیاۓ ضروریات مثَلاً کپڑا، جوتے وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اچھی خاصی کمی دیکھنے کو ملتی ہے، اور لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم منافعے پر اشیاۓ ضروریات فروخت کریں، تاکہ وہ اپنا مذہبی فریضہ بھی پورا کرے اور معاشرتی بھی.

بالکل اسی طرح کرسمس، ایسٹر، ہولی، دیوالی یا دیگر مذہبی تہواروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ شاپنگ سینٹرز یا عام بازاروں میں قیمتیں بالکل نیچے اتر آتی ہیں، خصوصی مارکیٹس لگتی ہیں جن میں کم قیمت اشیاۓ ضروریات رکھی جاتی ہیں، ایسی مارکیٹیں حکومت کی طرف سے بھی لگائی جاتی ہیں، جبکہ نجی کمپنیاں بھی اسے اپنا مذہبی و معاشرتی فریضہ سمجھتی ہیں.

دنیا میں پائے جانے والے مسلمان ملکوں میں بھی مذہبی تہواروں کے دوران جوش و خروش پایا جاتا ہے خصوصا رمضان میں تمام مسلمان یا غیر مسلمان ملکوں میں اشیاۓ خورد و نوش و ضروریات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی نظر آتی ہے. غیر مسلمان ملکوں میں جہاں بھی مسلم آبادی کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے وہاں رمضان میں قیمتیں انتہائی نیچے آ جاتی ہیں.

نئے سال کی آمد پر آسٹریلیا میں لوگ اپنا ساز و سامان تبدیل کرتے ہیں، پرانا سامان گھرکے باہر فٹ پاتھ پر رکھ دیا جاتا ہے تا کہ کوئی بھی ضرورت مند اسے اپنے استعمال میں لا سکے، کئی ضرورت مند اس عمل سے مستفید بھی ہوتے ہیں، جبکہ اس عمل سے کسی کو احساس کمتری بھی نہیں ہوتا، یہاں تو دس روپے کی نیاز بھی کم سے کم دس لوگوں کے علم میں لا کر تقسیم کی جاتی ہے.

رمضان گو کہ ساری مسلم دنیا میں اسلامی ٹریننگ کا مہینہ گردانا جاتا ہے جس میں اسلامی فریضے، اسلامی تعلیمات میں خود کو ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور یہ ٹریننگ کی جاتی ہے کہ سال کے بارہ مہینے یہی روایات اپنائی جایئں.

اس مہینے میں ٹریننگ کی جاتی ہے کہ نماز کی پابندی کو اپنایا جاۓ، زکوات، صدقہ و خیرات دی جایئں، اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاۓ. صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جاۓ، برداشت کا مادہ پیدا کیا جاۓ عدم برداشت کو ترک کیا جاۓ. رواداری، کینہ شکنی، جھوٹ سے پرہیز، صلہ رحمی، وغیرہ کی خاص تربیت کو اپنانے کا درس دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ سب گن اپنا کے اللہ رب العزت کی بے شمار نعمتیں و رحمتیں لوٹنے کا موقع ملتا ہے جس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا ہے.

نماز و تراویح کے ذریعے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنے کا بھرپور موقع ملتا ہے. روزہ کی بھوک برداشت کر کے خود کو قابل برداشت بنانے کا موقع بھی اسی ماہ بابرکت میں ملتا ہے.

ساری دنیا میں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں اس ماہ میں مذہبی تربیت حاصل کرتے ہیں اور جتنا ہو سکے خود کو گناہوں سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں.

پوری دنیا کے نقشے پر فقط پاکستان ایسا ملک ہے جس میں رمضان کا بڑی بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے، اور یہ مہینہ شروع ہوتے ہی رمضانی مینڈک باھر آ جاتے ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتے ہیں، باقی دنیا میں بھی اس مہینے میں لوٹ مار ہوتی ہے لیکن وہ مسلمان رحمتیں لوٹتے ہیں ہم مسلمانوں کو لوٹتے ہیں، ساری دنیا میں اشیاۓ ضروریات کی قیمتیں کم سے کم تر ہو جاتی ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں رمضان کریم کا مہینہ شروع ہوتے ہی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، زخیرہ اندوز مافیا سر اٹھا کے نکل آتی ہے اور خوب لوٹ مار کا بازار گرم کرتی ہے، اس ماہ بابرکت میں پاکستان کے ہر دکاندار، ریڑھی والے، چھابڑی والے، دھوبی، درزی یہاں تک کے گداگر بھی لوٹ مار میں مشغول ہو جاتے ہیں، جس کو جتنا موقع ملتا ہے لوٹتا ہے، کیوں کہ ان کو پتا ہے کہ یہ دن سال بعد آنے ہیں.

ہوس نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے، گداگر بھی رمضان میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے وہ بھی اپنی بستیوں سے نکل کر بڑے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں، پاکستان میں تو انٹرنیشنل گداگر بھی پاۓ جاتے ہیں جو رمضان میں بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں خاص طور پر مڈل ایسٹ کے ممالک میں ان کی خاصی تعداد جاتی ہے کوئی عمرے کا ویزا لے کر تو کوئی زیارتوں کا اور وہاں جا کے خوب کماتے ہیں، ہم لوگوں نے تو رمضان کو بھی ذریعہ معاش بنا لیا ہے.

پاکستان میں تو رمضان کو بھی بیچا جاتا ہے، سحری سے لیکر افطاری تک فجر سے لیکر تراویح تک، ہر چیز کو بیچا جاتا ہے، مداری قسم کے لوگ جنہیں "رمضانی مینڈک" بھی کہا جا سکتا ہے اسکرینوں پر براجمان ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کو تکا لگانے کی تلقین کرتے ہوے نظر آتے ہیں.

موبائل فون اور ڈنر سیٹ تو بہت بڑی چیز ہے یہاں تو بریانی کی پلیٹ پر بھی ہجوم لگ جاتا ہے، تیس دن کی ہر ایک چیز کو کمرشل بنا دیا جاتا ہے، ہم ایسی قوم ہیں جو مذہب کو بھی بیچ دیتے ہیں کیوں کے ہم جانتے ہیں کہ دو چیزوں پر ہی دنیا میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے؛ ایک مذہب اور دوسرا وطن.

ہم دونوں کو خوب بیچتے ہیں، رسوا کرتے ہیں، کیوں کہ بیچتا تو وہ نہیں ہے جس کا ایمان ہو، ہم نے تو سب سے پہلی واردات اپنے ایمان کو بیچ کر ڈالی ہے، مسجدوں سے لیکر فرقوں تک ہر چیز کو بیچنے کا ہم لوگ ریکارڈ رکھتے ہیں، ہم نے کبھی دین کو اپنے پیٹ پالنے کے لئے بیچا کبھی دوسرے کا پیٹ کاٹنے کے لئے بیچا.

اسکرینوں پر جلوہ گر ہونے والے اپنی دکان کو چمکانے کے چکر میں اخلاقیات وغیرہ سب بھول جاتے ہیں، کہیں بچہ گفٹ کر کے دین کو رسوا کیا جاتا ہے تو کہیں فرج اور واٹر کولر کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کو خدا نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا اسے ان جیسے مداری کیا نواز سکتے ہیں، بے شک، میرا رب بہتر فیصلے کرنے والا ہے، یہ لوگ اس مداری کھیل سے کوئی ثواب نہیں کما رہے بلکہ اپنے پیٹ پالنے لے لئے ایسے شرمناک کھیل کر رہے ہیں.

رمضان میں سحری اور افطاری کے دو وقت میں جرائم کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جرائم پیشہ عناصر اس وقت کا تعین اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ اس وقت روزے دار اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں. اس ماہ بابرکت میں ہم لوگ سحری اور افطاری کے وقت کا بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، اور بھلا جرائم پیشہ افراد فائدہ کیوں نہ اٹھائیں جب سب طبقات اپنے اپنے دھندے کو اس ماہ میں چمکانے میں لگے ہوئے ہیں اور سب کی چاندی ہے تو یہ کیوں کر پیچھے رہیں.

پاکستان میں کم و بیش ہر بندہ رمضان میں واردات ڈالنے کے مواقع تلاش کرتا نظر آتا ہے اربوں سے لیکر سیکڑوں تک کے وارداتیے پاکستان میں اس ماہ میں کثیر تعداد میں پاۓ جاتے ہیں، سستے بازاروں کے نام پر واردات، یوٹیلیٹی اسٹورز کے نام پر واردات، سبسڈی کے نام پر واردات، تبلیغ کے نام پر واردات اور پھر رویا جاتا ہے کہ برکت نہیں.

ہمارے ہاں تو روزہ رکھنے والے افراد بھی عجیب واردات کرتے ہیں، جو شخص روزہ رکھتا ہے وہ دوسروں پر دھونس جماتا ہے، خاص طور پر سرکاری ملازمین کا رویہ دیکھنے جیسا ہوتا ہے جو خود کو روزے دار ثابت کرنے کے انیک حربے استعمال کرتا ہے. روزے کی بنیادی تعلیم 'برداشت' کو تو ایسے خوبصورت انداز سے نبھاتے ہیں کے اس کی تو نظیر نہیں ملتی، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے روزہ رکھ کر کسی پر احسان کیا جا رہا ہے.

اس ماہ میں حکومتیں خصوصی سبسڈی دیتی ہے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے خصوصی کمیٹیاں بنائی جاتیں ہیں جو قیمتوں پر نظر رکھتی ہیں، یہاں بھی ایسے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، لیکن وہ بھی اپنا اصل کام چھوڑ کے واردات کرنے کے درپے ہوتی ہیں، کہیں واردات ہو تو ان کو بھی واردات کا موقع ملے.

باقی سب باتیں تو چھوڑو میاں صاحب آپ صرف آلو کی قیمت پر ہی ضابطہ لے آئیں، آپ کے وزیر صاحب نے تیس روپے فی کلو کی بات کی تھی وہی قیمت مقرر کروادیں آپ کی پاکستان کی "وارداتیاتی" قوم پر وارداتی مہربانی ہو گی. لیکن مجھے پتا ہیں یہ حسین واردات حکومت کے بس کی بات نہیں کیوں کہ وہ تو کسی اور ہی واردات کے چکر میں ہیں.

تنویر آرائیں

لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

Mehmood Jul 05, 2014 12:23pm
superb this 100 % true
fareen Jul 05, 2014 02:43pm
ye to sub k hi ilm m h tabsara krne s kuch mill gaya aapko?? amal krne k zarurat h baatein to sabi bari bari kr hi lete hn.......
fareen Jul 05, 2014 02:45pm
@Mehmood: is baat ki tashkhees to buht dair pehle ki ho chuki h ab to is pr baatein krne ki bajaaye iska hal nikaalne ki zarurat h.
Naveed Shakur Jul 06, 2014 12:02am
“I went to the West and saw Islam, but no Muslims; I got back to the East and saw Muslims, but not Islam.” Muhammad Abduh
Zaki Abro Jul 07, 2014 12:21am
@Naveed Shakur: kia baat hai tnaveer sahib aap ny to sahi akasi ki hai naam nihaad muslamanoon ki ,,, sharm aani chahey hameen ky ham sy achy to hundo hain ky hmarey ramzaan ky ehtraam main chezeen sasti karty hain aur ham lalach hisrs w havis main prey huy hain
راضیہ سید Jul 07, 2014 01:42pm
رمضا ن المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم تمام دینی احکامات کی نہ صرف اس مہینے میں پابندی کریں بلکہ پورا سال خود کو برائیوں سے پاک رکھنے کی سعی کریں ۔لیکن رمضان میں اسکے بالکل بر عکس نظر آتا ہے ،لڑائی جھگڑا ہو وہ اس مہینے میں زیادہ نظر آتا ہے یوں لگتا ہے کہ ہر کوئی اپنے بھوکے پیاسے رہنے کا بدلہ دوسروں سے لے رہا ہے ، اسی طرح مہنگائی اور بھی بڑھ جاتی ہے ، کسی بھی قسم کی رعایت دینا گویا گناہ کبیرہ ہے اور جو رمضان بازار سجائے گئے وہاں آٹا ، دال ، گھی ، چینی کا معیار کسی کی نظر سے اوجھل نہیں ، دو دن پہلے ہی کی بات ہے کہ آفس سے واپس جاتے ہوئے مجھے میٹرو منصوبے کی مہربانی کی وجہ سے رکشہ کروانا پڑا تو رکشے والے نے مجھے جو کرایہ بتایا اس میں اسلام آباد واپس دفتر پہنچ سکتی تھی اور جب میں نے اس سے اتنے کرائے کی وجہ پوچھی تو وہ اپنے پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا میڈم دیکھئے عید صرف آپ نے تو نہیں کرنی ناں آپ مہنگائی کی حالت دیکھیں ، اسکے بعد میں ایک دن رمضان بچت بازار گئی وہاں موجود لوگوں کی حالت زار دیکھ کر رہی دل افسردہ ہو گیا کہ ایک مقدس مہینے میں لوگ کسی طرح جھوٹ بول کر اور غلط بیانی کرکے اپنا خراب مال فروخت کر رہے ہیں ، کچھ فلاحی ادارے اور ایسی تنظیمیں ضرور ہیں جو غریب افراد میں خوارک اور راشن تقسیم کر رہی ہیں لیکن یہ جان کر اور بھی دکھ ہوا کہ ان بہت سے غریبوں میں موسمی اور نام نہاد غریب بھی شامل ہو گئے ہں جو خود کو مستحق ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم ہر طرح کی خیرات زکوۃ حاصل کر لیں ۔
یوسف شاھین Jul 07, 2014 07:22pm
جناب آرائیں صاحب، آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا یہی ہے ہمارا قومی کریکٹر، ایک مسلمان دوسرے کو لوٹ رہا ھے وہ بھی مقدس ماھ رمضان میں. بہت عمدہ تحریر اللہ آپ کو اپنے حفظ امان میں رکھے،
امجدقائم خانی Jul 08, 2014 10:42pm
اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے حوالے سے تبصرہ باکل درست ہے ، تنویر صاحب کے تمام آرٹیکل مفید معلومات پر مبنی ہوتے ہیں ، اللہ زور قلم میں اضافہ فرمائے

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024