کیلاش: حسن، افلاس، بے بسی اور خوف کا امتزاج
چترال کے جنوب مغرب میں ہندو کش پہاڑوں کی خوبصورت وادیوں میں بسیرا کرتی مذہبی اور لسانی اقلیتی کمیونیٹی اب بھی ہمارے ملک میں بیشتر محقیقین کے نزدیک ایک پر اسرار گروہ ہے۔ کوئی اس کو سکندر اعظم کی گمشدہ فوجیوں کی اولاد قرار دیتا ہے تو کوئی اس کو منگولوں سے منسوب کرتا ہے۔
یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگی کہ کیلاش اس پورے خطے بدخشان، شمالی پاکستان اور کشمیر میں ہزاروں سال پہلے بسنے والی گمشدہ قوم کی اپنی اصل صورت میں باقیات ہیں جو کئی غیر ملکی محقیقن کے نزدیک "درد" سے مسموم تھی۔
اس استدلال کی شہادت ان قدیم قبروں اور کھنڈرات سے دی جاتی ہے جو سوات میں 1954 سے سرگرم اطالوی ارکیالوجیکل مشن Italian Archeological Mission کی حالیہ دریافتوں میں اور چترال میں اسی طرح کی تحقیق سے سامنے آئے ہیں۔
تحقیق بتاتی ہے کہ یہ 'درد' قوم کئی مذہبی مرحلوں سے گزری۔ اپنے آبائی نظام فکر/مذہب Indigenous Worldview کو وقت اور سیاسی طاقت کے زیر اثر تبدیل کرتی رہی۔ کبھی بدھ مت اختیار کیا تو کبھی ہندو مت اور آخر میں مسلمان ہوگئی۔ ان میں کئی قبیلوں کو مسلمان ہوئے تین چار سو سال ہی ہوئے ہیں اور یہ قبیلے اب بھی ان پہاڑی سلسلوں میں آباد ہیں۔
چترال کی تین وادیوں بمبوریت، بریر اور رمبور میں لگ بھگ چار ہزار کیلاش بستے ہیں۔ ان میں زیادہ آبادی بمبوریت وادی میں بستی ہے اور یہاں بھی دو گاؤں کرکاکل اور انیش میں۔
چترال سٹی سے ان وادیوں تک تقریباً تین گھنٹوں کی دشوار مسافت ہے۔ یہ سڑک کئی دہایوں سے اسی طرح ویراں اور پر خطر ہے ۔ بمبوریت وادی میں کیلاش کے علاوہ مسلم کمیونیٹی بھی بڑی تعداد میں بستی ہے لیکن آمد و رفت کے اس واحد ذریعے کے لحاظ سے دونوں کی قسمت ایک ہی طرح کی ہے۔
اس سڑک کو پختہ نہ کرنے کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ کہیں باہر سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے پاکستان کے اس انوکھے ثقافتی ورثے کا خاتمہ نہ ہو اور ان کے قدرتی وسائل خصوصاً جنگلات کی کٹائی روکی جاسکے۔
بظاہر تو قدرتی و ثقاتی وسائل کی بقا پہ کام کرنے والوں کے لئے یہ بڑی دلکش دلیل معلوم ہوتی ہے لیکن اصل صورت اس سے یقیناً مختلف ہے۔ ایک تو ان سیّاحوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ اب بھی ہر سال ہزاروں کی تعداد میں خصوصاً کیلاش کے تہواروں کے موقعوں پر یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ وہ مبلغ حضرات بھی ہوتے ہیں جو کیلاش کو ہر صورت میں اپنی طرح بنانا چاہتے ہیں۔
کہیں بھی جنگلات کے تحفظ اور بقا کے بہانے مقامی لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کیا جاسکتا۔ کیلاش کے اور ساتھ دوسری جنوبی چترال کی وادیوں میں بسنے والے مقامی باشندوں کے جنگلات کو اب بھی باہر کے سمگلرز مقامی گماشتوں کے ذریعے کاٹ کر لے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ دو تین سال پہلے بڑے زوروں پر تھا۔ جنگلات اور قدرتی وسائل کے تحفظ اور بقا کے لئے متعلقہ اداروں کو موثر کرنے کی ضرورت ہے نا کہ لوگوں کو مشکلات میں مبتلا کرنے کی۔
یوں تو کیلاش لوگوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے جن کا احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں البتہ تین بڑی بڑی آفتوں کا ذکر لازمی ہے؛
کیلاش لوگ ایسی وادیوں میں گھیرے ہوئے ہیں جن کی سرحدیں شمالی افغانستان سے لگتی ہیں۔ وہاں طالبان کی موجودگی اور ان کی طرف سے گاہے بگاہے دھمکیاں کیلاش کو ہمیشہ خوف میں مبتلا رکھتی ہیں۔ اس سال کے شروع میں طالبان کی طرف سے وڈیو دھمکی اور اس سے پہلے ایک کیلاشی چرواہے کا قتل اور بکریوں کی چوری نے ان بے چاروں کو سخت خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
کیا کم تھا کہ مبلغین نے گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ اس وادی میں درختوں پر آیات کریمہ فولادی تختیوں پر لکھ کر ٹانگی گئی ہیں۔ بظاہر یہ بے ضرر سی سرگرمی ایک خاص ذہنیت کی عکاس ہے جس کا مقصد کیلاش کو اپنےجیسے بنانا ہے۔ اس وادی میں مسجدوں اور مدرسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
ایک مسلمان کے لئے یہ بڑا نیک شگون ہے لیکن اگر کیلاش ہو کر محسوس کیا جائے تو یہ عمل ان کو ایک ابدی خوف اور "بڑے سماج" کے دباؤ میں رکھتا ہے جس سے عدم تحفظ کا شکار ہونا لازمی عمل ہے۔ ہاں پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ہے چاہے آئین اس کی اجازت دے یا نا دے۔ نہ صرف کیلاش بلکہ پاکستان میں ہر اقلیتی گروہ سخت ترین عدم تحفظ کا شکار ہے۔
کیلاش میں اس کا اثر ایک زندہ اور مشہور ثقافتی ورثے کی معدومی کی صورت میں ہوتا ہے کیونکہ جو کیلاش اپنے مذہب سے منحرف ہو جاتا ہے وہ اپنی ثقافت، روایات اور زبان کو بھی خیرباد کہتا ہے۔
دوسری بڑی مصیبت کیلاش کے لئے اندرونی سیّاح ہیں۔ ان سیّاحوں کی اکثریت کیلاش وادیوں میں حسن و سرور کے لئے جاتی ہے۔ کیلاش لڑکیوں کو چھیڑا جاتا ہے، ان کی تصویریں اتاری جاتی ہیں اور ان کے گھروں میں بھی گھسا جاتا ہے۔
کیلاش لڑکیاں اب تصویر اتروانا نہیں چاہتیں کیونکہ دن میں سینکڑوں بار کیمرے کے سامنے کھڑا ہونا ان کے لئے تکلیف دہ عمل بن چکا ہے اس پر مستزاد یہ کہ بعض سیّاح ان کو چھیڑنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ کیلاشی بچیاں اکثر رقم مانگتی ہیں جب ان کو فوٹو کے لئے کہا جائے۔ ان کو اس طرف یہ سیّاح مائل کرتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر گھروں میں گھس کر عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور یوں وہ بے چاری ہراساں ہوجاتی ہیں۔
کیلاش خواتین اور مرد وں کی رنگت اکثر گوری ہوتی ہے۔ یہ عورتیں اپنے اس روایتی رنگین لباس میں بڑی خوبصورت لگتی ہیں مگر یہ پری زادیاں افلاس اور ناخواندگی کی زندگی گزارتی ہیں۔
ایک تعلیم یافتہ کیلاش خاتون کے نزدیک حکومت اور سوسائٹی نے ان کو کسی چڑیا گھر میں موجود پینجرے کا جانور بنا رکھا ہے یا پھر کیلاش شو کیس میں بند وہ عجوبے ہیں جن کو باہر والوں کو دکھایا جاتا۔
اس جی دار خاتون کے نزدیک حکوت اور دوسرے سرکاری و غیر سرکاری ادارے کیلاش کے نام اور روایات پر پیسے تو کماتے ہیں لیکن ان کی تعلیم اور غربت میں کمی کے لئے کچھ نہیں کرتے۔
کیلاش میں تھوڑا بہت ترقیاتی کام اگر ہوا بھی ہے تو وہ بھی یونانی حکومت کی مرہون منت ہے۔ واضح رہے کہ یونانی حکومت نے اپنے دیوالیے ہونے کے بعد بہت سے کام اب ترک کر دئے ہیں۔
جو ایک دو اسکول موجود ہیں ان میں بھی کلاشہ زبان اور مذہب کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ ہر کیلاش بچہ اسلامیات اور دیگر زبانیں سیکھنے پر مجبور ہے۔
پاکستان کے ہر سرکاری و غیر سرکاری دفتر میں، شہروں کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں اور عوامی جگہوں پر کیلاش خواتین کی تصویریں چسپاں ہیں لیکن بہت کم ہی ہونگے جو ان کی اذیت ناک، خوفزدہ اور بے کسی کی زندگی سے واقف ہوں۔ ایسے پاکستانی کم ہی ملیں گے جن کو کیلاش اور ان جیسے دوسرے قبیلے اپنی الگ شناخت، عقیدے اور مذہب سمیت قابل قبول ہو۔
تبصرے (1) بند ہیں