رکشہ پروجیکٹ: تبدیلی کی طرف ایک سفر
معذور افراد کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اور انھیں معاشرتی دھارے میں لانے کے لیے کبھی پُر خلوص کوششیں نہیں کی گئیں۔ اگر کچھ لوگ ان افراد کی مدد کرنا بھی چاہیں تو براہِ راست اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
لیکن اب پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم نیٹ ورک آف آرگنائزیشن ورکنگ فار پیپل وِد ڈس ایبیلٹیز، پاکستان (ناؤ پی ڈی پی) کی جانب سے شروع کیے گئے 'رکشہ پروجیکٹ' کو معاشرے میں مثبت تبدیلی کی ایک علامت سمجھا جارہا ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے پروجیکٹ مینیجر ذوالقرنین اصغر نے رکشہ پروجیکٹ شروع کرنے کے بنیادی مقصد کے حوالے سے بتایا۔
ذوالقرنین اصغر کے مطابق رکشہ پروجیکٹ کا آغاز 2012 میں کیا گیا، جس کا مقصد معاشرے کے معذور افراد کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا، جہاں انھیں برابری کی سطح پر لایا جا سکے۔
پروجیکٹ کا ایک مقصد معذور افراد کے حوالے سے معاشرے میں رائج منفی سوچ کو ایک چیلنج سمجھ کر تبدیل کرنا بھی تھا۔
مخیر حضرات کی جانب سے مالی معاونت اور مدد کے باعث اس پروجیکٹ کے پاس جی پی ایس ٹریکر کے حامل پانچ رکشے اور تین ماہر اور لائسنس یافتہ ڈرائیورز موجود ہیں۔
رکشہ پروجیکٹ کے ڈرائیور عمران اور سراج نے رکشہ کی ساخت اور اپنے ذاتی تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ رکشے اس انداز میں بنائے گئے ہیں کہ انھیں ہاتھوں کی مدد سے باآسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
رکشہ پروجیکٹ عوام کے لیے بہت فائدہ مند اور دوستانہ ہے، جس میں کوئی بھی فرد پروجیکٹ کے کال سینٹر فون کرکے رکشہ کی بکنگ کروا سکتا ہے اور رکشہ انھیں اُن کی مطلوبہ منزل سے پک کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس پروجیکٹ کو چلانے والی ٹیم نے مختلف مقامات پر ایسے پروگرام بھی شروع کیے ہیں، جن کے سیشنز میں عوام کو معذور افراد کو معاشرتی دھارے میں لانے کے حوالے سے آگہی فراہم کی جائے گی۔
تبصرے (1) بند ہیں