• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

بک ریویو: بار شناسائی

شائع July 4, 2014

کرامت اللہ غوری طویل عرصے تک دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستان کی جانب سے سفارتکاری کے فرائض انجام دینے کے بعد اب ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن کتاب اور قلم کی دنیا سے ان کا فعال رشتہ اب بھی قائم ہے- افسانہ نگار اور کالم نگار کی حیثیت سے وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی مقبول ہیں-


بار شناسائی ان وی-وی آئی پی شخصیات کی یادوں پر مشتمل ہے جن سے مصنف کو اپنی سفارتکاری کے دوران ملنے کا موقع ملا- یہ کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ان کے تاثرات اور مشاہدات کے حوالے سے ان شخصیتوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، جن کا بقول مصنف پاکستان کی تاریخ بنانے اور بگاڑنے میں اہم ہاتھ رہا ہے، بنانے میں کم اور بگاڑنے میں زیادہ کیونکہ اگر بنی ہوتی تو آج پاکستان کے خد و خال ہی مختلف ہوتے-

سیاسی شخصیات میں جنرل ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف شامل ہیں جبکہ غیر سیاسی شخصیات میں پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام، فیض احمد فیض اور حکیم محمد سعید جیسی علمی اور ادبی شخصیات شامل ہیں جن سے ملنا اور جن کے ساتھ وقت گزارنا بھی ایک ایسا بھر پور احساس مسرت اور طمانیت عطا کرتا تھا جو دل کی گہرائیوں میں ہمیشہ تازہ رہتا ہے-

جنرل ضیاء الحق کے مضمون کے ساتھ "مومن کہ منافق" کا ٹکڑا لگا کر غوری صاحب نے قارئین کو کھلی آزادی دی ہے کہ لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں- کس کو کونسا پلڑا بھاری نظر آتا ہے اس کا انحصار تو خود قارئین کے اپنے انداز فکر پر ہے-

ہمارے ملک کی سیاست میں جو بدعنوانیاں جڑ پکڑ گئی ہیں اور اقربا پروری اور حرص و ہوس کا جو دور دورہ ہے اسکی اینٹ تو غالباً اسی دن رکھ دی گئی تھی جب پاکستان معرض وجود میں آیا- قائد اعظم کی آنکھ بند بھی نہ ہوئی تھی کہ طالع آزماؤں نے اپنے کھیل شروع کردیئے-

گو کہ غوری صاحب نے اس کے نمونے بچشم خود دیکھے لیکن عوام کی نظروں سے بھی یہ کبھی پوشیدہ نہ رہے- زمینداری کا خاتمہ اگر قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں کر دیا جاتا تو جمہوریت بھی پیروں تلے روندی نہ جاتی اور فوجی آمروں کے ساتھ ساتھ سویلین آمروں کو بھی کھل کھیلنے کے مواقع نہ ملتے جسکی وجہ سے ہماری جمہوریت سسکیاں لیتی رہی. اب جو اسے سانس لینے کا موقع ملا بھی ہے تو یوں کہنا چاہیئے وینٹیلیٹر پر ہے اور ہمیشہ یہی خدشات سر پر منڈلاتے رہتے ہیں کہ کوئی ہاتھ اسے ہٹانے اب آگے بڑھا کہ تب-

ہمارے سابقہ اور موجودہ ارباب اختیار کے غیر ملکی دورے، ان کی عیاشیاں اور بے حسی ایک ایسے معاشرے کی تصویر پیش کرتی ہے جو اخلاقی طور پر انحطاط کا شکار ہے، لیکن غوری جب بیرون ملک پاکستانی اسکولوں میں سیاسی جوڑ توڑ کا ذکر کرتے ہیں تو افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم تعلیم جیسے مقدس شعبے پر ہاتھ ڈالنے سے بھی نہیں چوکتے اور یہ سب کچھ نام نہاد قومی خدمت کے پردے میں کیا جاتا ہے-

غیر سیاسی شخصیات میں پاکستان کے مایہ ناز سائنسداں ڈاکٹر عبد السلام، فیض احمد فِض اور حکیم محمد سعید شامل ہیں- فیض کو تو بالاخر اپنا مقام مل گیا لیکن ڈاکٹر عبد السلام کا نام لیتے ہوئے دل میں دکھ کی ایک لہر اٹھتی ہے- غوری صاحب بجا طور پر لکھتے ہیں کہ یہ وہ ہیرا ہے جسکی ہم نے قدر نہ کی-

نیوکلیر فزکس میں نوبل انعام حاصل کرنے والی اس عظیم شخصیت کو "اچھوت" قرار دیکر ہم نے خود اپنی کم ظرفی اور علم دشمنی کا ثبوت دیا- ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایک روشن ستارے کی طرح اپنی جگہ قائم ہے، ہاں ہم نے اپنی جگ ہنسائی کا سارا سامان مہیا کردیا- کیا اس سے انکار ممکن ہے کہ علم و دانش کے دشمن ان کے سامنے بونے نظر آتے ہیں؟

غوری صاحب نے اپنی سفارتکاری کے دوران ان کے ساتھ اپنی تین ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے ایک جاپان میں، دوسرے الجزائر میں اور تیسرے کویت میں- ڈاکٹر صاحب نے عالم اسلام سے دردمندانہ اپیل کی تھی کہ وہ سائنسی علوم کی ترقی اور ترویج کی طرف توجہ دیں لیکن افسوس کہ ان کی یہ اپیل "صدا بصحرا" ثابت ہوئی- خدا جانے ہمیں کب ہوش آئیگا-

ڈاکٹر عبد السلام کی طرح فیض بھی ان دنوں اقتدار کی راہداریوں میں معتوب تھے- غوری صاحب کا ہی حوصلہ سمجھنا چاہیئے کہ انھوں نے ایوان اقتدار کی خوشی اور ناخوشی کو بالائے طاق رکھ دیا-

حکیم سعید کا ذکر بھی غوری صاحب بڑے ہی احترام اور محبت سے کرتے ہیں- حکیم صاحب اس وضع داری کی مثال تھے جو اب ناپید ہوتی جارہی ہے- ان کی علم دوستی اور سماجی خدمات کسی سے چھپی نہیں- ہماری بدقسمتی کہ ہم ہی نے اس چراغ کو گل کردیا جو جلتا رہتا تو اپنی روشنی چاروں طرف بکھیرتا رہتا-

سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کے یہ خاکے دو متضاد رویوں کی عکاسی کرتے ہیں- ایک طرف رعونت، تکبر، حرص و ہوس کے تماشے ہیں تو دوسری طرف علم و دانش کے موتی، عجز و انکسار، سادگی اور انسان دوستی کے پیکر جو امر ہیں-

بار شناسائی دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے اور ہمیں ایک طرف اقتدار کے ایوانوں کی سیر کراتی ہے تو دوسری طرف ان شخصیات سے روشناس کراتی ہے جن کی وجہ سے انسانیت سر بلند ہے-


کتاب کا نام: بار شناسائی

لکھاری: کرامت اللہ غوری

پہلی چھپائی: 2013

پبلشر: فاروق میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ، ڈی-84، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی 110025

ISBN-10: 81-7221-060-4

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Musleh Uddin Ahmad Jul 04, 2014 07:27pm
'Musannif**' is better word for "Likharee" Moreover, where from did DAWN get this word? Please, change it to Musannif.
Shams Mughal Jul 05, 2014 08:33am
What is the price?
S N Hussaini Jul 06, 2014 08:36am
@Musleh Uddin Ahmad: سلام جناب۔ مصنف عربی لفظ ہے، جبکہ لکھاری ھندی سے اردو میں آیا ہے۔بس یہی فرق ہے۔ اور ہاں ا بعض عربی الفاظ جو اردو میں زیر استعمال ہیں ان کے معانی میں بھی تمیز نہیں کی جاتی، چنانچہ مصنف اور مولف کے درمیان فرق نہی کیا جاتا۔ فافھم یا الوالابصار ایس این حسینی

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024