• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

تخت لہور اور احساسِ محرومی

شائع June 13, 2013

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/96548160" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


کہاں تخت لہور اور کہاں احساسِ محرومی، دیکھنے میں تو دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی جوڑ نہیں۔ لیکن اگر تھوڑا پیچھے گذرے پانچ سالوں پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوجائیگا کہ تخت لہور جو ساٹھ سالوں سے بلا کسی کی شرکت کے پیارے پاکستان کے سیاہ وسفید کا مالک بنا بیٹھا تھا۔ اس نے پچھلے پانچ سالوں میں پہلی بار احساسِ محرومی کو حقیقت میں محسوس کیا۔ کہنے کو تو وہ پھر بھی کسی نا کسی طرح سیاہ وسفید کا مالک بنا رہا کیونکہ بیوروکریسی اورپاک افواج میں تو اکثریت اب بھی اسی کی ہی ہے۔

یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ بیوروکریسی اور پاک افواج ملک کی باگ ڈور ابھی تک بھی اپنے ہی ہاتھ میں رکھنا پسند کرتی ہے۔ سو بھلے ہی چھوٹی قوموں کے منتخب نمائندے مرکز میں اقتدار کے مالک دکھائی دیے، لیکن ہوا تو پھر بھی وہی جو اقتدار کے اصل مالکان کو پسند تھا۔

اس کے باوجود کہ حکومت چھوٹے صوبوں کے نمائندوں پر ہی مشتمل تھی۔ اپنا تخت لہور جو کھانے پینے اور خرچ کرنے میں ہمیشہ سے ہی کُھلا ڈُلا رہا ہے۔ اس میں احساس ِمحرومی کا پیدا ہونا لازمی تھا کہ مرکز میں اس کی نمائندگی نہیں تھی اور مرکز کے بغیر رہنا کتنا مشکل ہے، یہ تو تخت لہور والے ہی جانتے ہیں۔

لاہور اور اسلام آباد میں فاصلہ ہی کتنا ہے؟ اسے توآباد ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ سارے مسائل دن ڈھلنے سے پہلے ہی حل ہوجائیں۔ میاں صاحب نے موٹروے بنانے کی تکلیف بھی اسی لیے اٹھائی تھی اور آپ نے دیکھا بھی کہ موٹروے بننے سے یہ سب ممکن بھی ہوا۔

لیکن پچھلے پانچ سال میں اتنی دور دور سے آئے لوگوں نے نا صرف اسلام آباد میں بیٹھ کر مزے اڑائے بلکہ اپنے تخت لہور کے باسیوں کا تو مذاق بھی اڑایا اور بلا وجہ چھیڑ خانی بھی کی۔ اب اِدھر چھوٹی چھوٹی قوموں اور چھوٹے چھوٹے صوبوں کے لوگ اسلام آباد پر راج کر رہے تھے تو اُدھر تخت لہور بغیر بجلی اور گیس کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔

السٹریشن — خدا بخش ابڑو –.
السٹریشن — خدا بخش ابڑو –.

کہنے کو تو تخت لہور والوں نے ووٹ بھی اسی نام پر لیا کہ یہ اندھیرے اور گیس سے محرومی کا سبب ایک تو مرکز والے اور دوسرے یہ چھوٹے صوبے بھی ہیں کہ تخت لہور کو اس کے بڑے ہونے، اکثریت میں ہونے کی سزا دے رہے ہیں۔ انشااللہ ہم حکومت میں آتے ہی اندھیرے ختم کرکے آپ سے چھینی ہوئی روشنی لوٹا دینگے۔

اب جب تخت لہور والے مرکز میں آ گئے ہیں تو فرماتے ہیں کہ چھینی ہوئی روشنیاں لوٹانے میں تو سال لگ جائینگے۔ وزیر صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ سی این جی چاہیئے یا بجلی یہ فیصلہ بھی عوام ہی کریں کہ ہم تو دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی مشکل سے دے سکتے ہیں۔

اصل میں اپنے بھولے عوام پینسٹھ سال گذرنے کے بعد بھی یہ چیز سمجھ نہیں پائے ہیں کہ اقتدار سے باہر اور اقتدار میں بولی جانے والی زبانیں دونوں الگ الگ ہوتی ہیں۔ وہ ریل کی پٹریوں کی طرح کبھی بھی ایک نہیں ہوسکتیں۔

بندہ کوئی بھی ہو اقتدار کی لکیر کے اِس پار اسے وہی بولنا ہوتا ہے جو وہاں بولا جاسکتا ہے اور لکیر پار کرنے کے بعد تو وہیں کی بولی بولنی پڑتی ہے جو وہاں رائج ہے۔

آپ چاہیں کہ میاں صاحب اور اس کے ساتھی وہی بولی بولیں جو وہ باہر بول رہے تھے تو وہ تو جوشِ خطابت میں انسان کچھ بھی بول جاتا ہے۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

لیکن یہ جو کرسی ہے نا جو آپ لوگوں کی بدولت نصیب ہوتی ہے اس پر بیٹھ کر اچھا خاصہ مسخرہ بھی سنجیدہ باتیں کرنے لگتا ہے۔ میاں صاحب تو پہلے سے ہی سنجیدہ اور دھیرج والے ہیں۔ اب کی بار تو ویسے بھی ان سے قوم نے ایسی ایسی توقعات وابستہ کرلی ہیں کہ وہ یہ لائین پار کرنے کے بعد کچھ زیادہ ہی سنجیدہ اور کچھ کچھ رنجیدہ بھی دکھائی دیتے ہیں۔

ان کی اس پھیکی سی مسکراہٹ کے پیچھے بھی بہت کچھ چھپا ہے جو دھیرے دھیرے ہی عیاں ہوگا اور ہو بھی رہا ہے۔

وہ جو ایک دن میں تبدیلی لانے والے تھے ان کو جہاں تبدیلی لانے کا موقعہ ملا ہے وہیں تبدیلی لے آئیں تو غنیمت ہے۔ البتہ جہاں تبدیلی کا دور دور تک بھی امکان نہیں تھا وہاں میاں صاحب کے ایک ہی فیصلے نے تبدیلی کی بنیاد ڈال دی ہے۔

اب اس ایک ہی فیصلے نے ایک طرف تو بہت سوں کو اچنبھے میں ڈال دیا ہے تو دوسری طرف میاں صاحب کے ذہن میں چھپے آئندہ کے اقدامات کی طرف بھی نشاندہی کردی ہے۔

پہلے تو وزیراعظم بھی قصرِ صدارت میں کھیلی جانے والی بازی کا مہرہ ہوا کرتا تھا۔ اب کم ازکم وزیرِ اعظم کوایسے ایسے فیصلے لینے کے لیے قصرِ صدارت کی طرف دیکھنا نہیں پڑے گا۔

یوں تو اپنے قصرِ صدارت کے باسی بھی اب چند ماہ کے مہمان رہ گئے ہیں۔ اب صدارت کا شوق کراچی کے بلاول ہاؤس سے پورا کیا جائے گا۔ کراچی میں ایوانِ صدر روڈ بھی ہے تو ایوانِ صدر بھی، لیکن اس ایوانِ صدر میں اسلام آباد کے آباد ہونے کے بعد صوبے کے گورنر ہی بیٹھتے ہیں۔ اور اب کی بار بھی گورنر اردو بولنے والا ہی ہوگا۔

پیپلز پارٹی والے ابھی سے گھبرانا شروع ہوگئے ہیں کہ کوئی بھٹو گورنر لگنے والا ہے۔ اصلی بھٹو تو نقلی بھٹو کے قصرِ صدارت سے روانگی کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیسے ہی یہ بوریا بستر باندھینگے پھر ایک اور دھماکہ ہوگا۔

میاں صاحب ویسے بھی دھماکے کرنے کے عادی ہیں۔ قصرِ صدارت میں جب اصلی بھٹو بیٹھے گا تو سندھیوں کااحساسِ محرومی جو مرکز میں بقول سندھی اخبار کے ڈھائی وزیروں کی وجہ سے پیدا ہونے کو ہے، قدر ےکچھ کم ہوگا۔

ویسے بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کو پچھلے حساب کتاب تو چکانے ہی پڑینگے جو اس نے تخت لہور کے ساتھ روا رکھے اور اسے احساسِ محرومی کی اس نہج پر پہنچا دیا کہ وہ اب سب کچھ لاہور کے ہی تحت کرنے والے ہیں۔ لیکن اس میں سامنے لاڑکانہ کو ہی رکھنے کا پروگرام ہے کہ نقلی بھٹو جو نوابشاہ سے آکر پورے لاڑکانہ کو ہڑپ کر گئے ہیں کے سامنے اصلی بھٹو کو لا کھڑا کرنا ہے۔ پھر دیکھیں تخت لہور اور لاڑکانہ مل کر سندھ میں کیا کیا رنگ دکھاتے ہیں۔

ویسےاچھا تو یہی ہوتا کہ اب لاہور سے ہی ملک کو چلایا جاتا، خوامخوہ اسلام آباد کو تکلیف دینے کی کوئی ایسی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن کیا کریں مجبوری ہے۔

ویسے بھی آپ تو جانتے ہی ہیں کہ لاہور اور اسلام آباد ایک ہی ہیں۔ چھ وزیر، اسپیکر، وزیراعظم، وزیرِ اعلیٰ تو لاہور کے ہیں ہی باقی کے جو بچتے ہیں، ان میں سے بھی آٹھ وزیر گوجرانولے کے ہیں۔ جو بھی کچھ ہوگا لاہور اور اسلام آباد کے درمیان ہی ہوتا رہے گا تو پھر ہم نے لاہور جا کے کیا کرنا ہے۔ اب کی بار تو لاہور اور اسلام آباد کا فرق خود ہی مٹنے جا رہا ہے۔

باقی رہ گئےچھوٹے صوبے تو وہ آپ ہی جانیں! اٹھارویں ترمیم کے بعد تو ویسے بھی سب اپنے صوبوں کےخود ذمیدار ہیں۔

بلوچستان تواس کے اصل وارثوں کے حوالے کردیا ہے۔ اب دیکھیں غائب کرنے والوں اور لاشیں پھینکنے والوں سے کیسے نمٹتے ہیں۔ پہلے ہی دن پانچ لاشوں کا تحفہ تو وصول کر ہی لیا گیا ہے۔

پختونخواہ والے ابھی تک تعلیم کی وزارت پر ہی اٹکے ہوئے ہیں۔ ڈرون گرائیں تو ہم بھی مانیں۔ باقی تبدیلی کا پتہ تو رمضان کا چاند دیکھنے بعد ہوگا کہ کچھ بدلا بھی ہے کہ نہیں۔

سندھ میں تو آغاز ہی ہڑتال اور سوگ سے ہوا ہے، توآگے بھی اقتدار کے بغیر نا رہ سکنے والے پچھلےپانچ سال کی طرح کبھی خوشی کبھی غم کی فلم چلاتے رہینگے۔ کبھی اقتدار میں تو کبھی سوگ میں، ان کا آنا جانا لگا رہے گا ہمیشہ کی طرح۔


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

خدا بخش ابڑو
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024