'کوئٹہ کے علاوہ صوبے میں کوئی فیئرپرائس شاپ نہیں'
اسلام آباد: سپریم کورٹ کا ایک بینچ اس وقت حیرت زدہ رہ گیا، جب منگل کے روز اس کو بتایا گیا کہ 2009ء کے بعد سے بلوچستان کے حاجت مند طبقات کے لیے غذائی اشیاء پر سبسڈی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔
اور صرف یہی نہیں بلکہ کوئٹہ شہر سے باہر کوئی ایک فیئر پرائس شاپ موجود نہیں ہے، جہاں سے صوبے کے غریب ترین لوگوں کو سستے داموں گندم کے آٹے یا اناج کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔
لیکن صوبائی محکمۂ خوراک کے ڈائریکٹر ایاز مندوخیل نے کہا کہ رمضان کے لیے اکیس کروڑ روپے کی سبسڈی کی ایک سمری تیار کی گئی تھی اور متعلقہ حکام کو بھیج دیا گیا تھا۔
یہ انکشاف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ کے سامنے کیا گیا، جو جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست کی سماعت کررہی تھی۔
اِس درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اُس کے غریب اور بے یار و مددگار شہریوں کو انتہائی مہنگے داموں آٹا خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
درخواست گزار نے دلیل دی تھی کہ معمولی وسائل پر ٹیکس عائد کرکے ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا گیا ہے، جس سے لوگوں کو اپنے خاندان کے لیے دو وقت کے کھانے کا بندوبست کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
یہ عدالتی بینچ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اس سلسلے میں عدم سنجیدگی کے مظاہرے کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اور صوبائی محکمۂ خوراک کے سیکریٹریوں کو پیر کے روز دوران سماعت ٹھوس تجاویز کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیا تھا تاکہ غریب طبقات کی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے عملی طریقے تلاش کیے جاسکیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آئین میں معاشرے کے غریب ترین طبقات کو کم سے کم غذائی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت دی گئی ہے، اور حکومتی رویے آئین شکنی کے مترادف ہیں۔
تین رکنی بینچ نے واضح الفاظ میں خبردار کیا تھا کہ متعلقہ فوڈ سیکریٹریز پوری تیاری کے ساتھ عدالت میں پیش ہوکر اس بات کی ضمانت دیں کہ وضع کی جانے والی اسکیموں پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ عدم تعمیل کی صورت میں نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔
عدالت نے کہا کہ ’’یہ آخری موقع ہوگا۔‘‘ اور کسی لگی لپٹی کے بغیر مزید یہ بھی کہا کہ وہ مختلف حکومتوں کی جانب سے اس کام میں غیرمعمولی تاخیر سے تنگ آگئی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ’’یہ اس ملک کے عوام کے ساتھ کیا جانے والا ایک ظالمانہ مذاق ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی غیر تسلی بخش صورتحال ہے اور جن لوگوں کو امداد دی جارہی ہے، وہ اس کے وصول کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری سیرت اصغر نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت فوڈ سبسڈی کی مد میں سالانہ 200 ارب روپے فراہم کر رہی ہے، جس میں سے 118 ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی ایس آئی پی) میں جاتے ہیں، جس کا 80 فیصد فوڈ پرخرچ کیا جاتا ہے اور 8 ارب روپے پاکستان بیت المال کے لیے الگ کرلیے جاتے ہیں۔
اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ فوڈ سبسڈی کے لیے مختص کی جانے والی رقم کے لیے اس بات کو یقینی بنانا چاہیٔے کہ وہ صرف غذائی اشیاء کے لیے ہی استعمال کی جائے۔
خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل زاہد قریشی نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے ضروری غذائی اشیاء ضرورت مند شہریوں کے لیے دستیابی کو یقینی بنانے کی خاطر ایک اسکیم شروع کی ہے، جس میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے حاصل شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر ایک اسمارٹ کارڈ تیار کیا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ تقریباً پانچ ارب روپے پہلے ہی 2014-15ء کے بجٹ میں مختص کردیے گئے تھے، تاکہ مطلوبہ سبسڈی کا ہدف حاصل کیا جاسکے، غذائی اشیاء کے لیے اضافی سبسڈی بھی پہلے سے فراہم کردی گئی تھی۔
پنجاب کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رزاق اے مرزا نے کہا کہ صوبائی حکومت نے حکومتی سبسڈی کی تقسیم کے لیے بڑی تعداد میں پروگرام شروع کیے تھے، تاکہ حکومت کے مقررہ معیار کے مطابق غریب ترین لوگوں کو روزانہ کی کم سے کم غذا کے حصول کے قابل بنایا جاسکے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ فی الحال ضرورت مندوں کو غذائی اشیاء کی ترسیل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔
سندھ کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قاسم میر جٹ نے عدالت کو بتایا کہ صوبے نے سندھ ضروری اشیاء کی قیمتوں کے کنٹرول ، بے تحاشہ منافع اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لیے ایک ایکٹ کا مسودہ تیار کیا ہے، جسے جلد ہی سندھ اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔