• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

مبالغے سے ہسٹیریا تک

شائع July 1, 2014
پاکستانی ہیجان پرست ہیں اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھتے رہیں تو ان کے جذبات کو بھڑکانا ضروری ہے
پاکستانی ہیجان پرست ہیں اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھتے رہیں تو ان کے جذبات کو بھڑکانا ضروری ہے

مشرف کے دور حکومت کے آخری خلفشار کے دنوں میں، جب یہ کہا جانے لگا کہ ملک کا الیکٹرانک نیوز میڈیا سیاسی کھیل کا صرف ایک تماشائی ہی نہیں ہے بلکہ شاید خود بھی ایک کھلاڑی ہے، تو کافی لوگوں کو تبدیلی کا احساس ہونے لگا تھا-

ایک دوست جو تھیٹر میں کام کرتے ہیں ان کے پاس ایک چینل اس مقصد کیلئے آیا تھا کہ ان کے خبریں پیش کرنے والوں اور مبصرین کی کچھ اس طرح کی تربیت کریں جیسی اداکاروں کی کی جاتی ہے، تاکہ ان میں فوراً ہی کہانیاں تخلیق کرنے اور کہنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے اور وہ پیشہ ورانہ مہارت سے اپنے ناطرین کی توجہ چینل سے ہٹنے نہ دیں-

میرے دوست نے اپنی کلاس کی ابتدا سانسوں اور آواز میں اونچ نیچ کی ورزش سے شروع کی، انہوں نے یہ بتایا کہ کیسے، دباؤ کے لمحات میں، انسان کی آواز زیادہ اونچی ہوجاتی ہے، اور یہ کہ وہ جس پیشہ میں ہیں اس میں یہ ناپسندیدہ عمل ہے- جو شخص خبریں دے رہا ہے اسے مکمل طور پر پرسکون نظر آنا چاہئے، اپنے جذبات پرقابو اورناظرین کا بھروسہ اسے حاصل ہو- انہوں نے مکمل وضاحت سے عملی مظاہرہ کر کے دکھایا کہ بےچینی اور خلفشار کے لمحات میں کیونکر انسان کے ہاتھ ذرا زیادہ ہلنے جلنے لگتے ہیں جو ناظرین کو ناگوار اور توجہ کو منتشر کرنے والے لگتے ہیں- اور کیونکر بار بار جسم کی پوزیشن بدلنا--- کہنیوں کو میز پر رکھنا اورہٹانا، کاغذات کو اوپر نیچے کرنا--- خبریں پیش کرنے والے کے بارے میں منفی تاثر دے سکتا ہے-

چند دنوں کے بعد، چینل والوں نے انہیں فون کیا، وہ اس بات سے خوش نہیں تھے- ان کا اعتراض تھا، آخر آپ میرے لوگوں کو نرمی اوردھیرج کی تربیت کیوں دے رہے ہیں؟ ان میں توانائی اور ولولہ ختم ہوگیا ہے- پتہ یہ چلا کہ چینل اپنے لوگوں کو تربیت تو دینا چاہ رہے تھے، لیکن ان کو توازن نہیں چاہئے تھا-

"اگر ہمارے خبریں پڑھنے والوں میں جوش وجذبہ نظر نہیں آئے گا اور اگر ان کے اندر واقعے کے تعلق سے کوئی جذبات نہیں ہونگے تو ہمارے ناظرین ہمیں کیوں دیکھیں گے؟" میرے دوست نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو واقعات کو صحیح طور پرسمجھنے کیلئے ایک متوازن سوچ چاہئے جس کیلئےرپورٹر یا خبریں پڑھنے والے کا پر سکون ہونا ضروری ہے- توازن اور جوش و ولولہ ایک چیز نہیں ہے-

"تمہیں کیا پتہ؟" کارپوریٹ کے پاس جواب حاضر تھا- "پاکستان کو ہیجان چاہئے- پاکستانی ہیجان پرست ہیں- اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھتے رہیں تو ان کے جذبات کو بھڑکانا ضروری ہے اور ان کو تفریح دکھانا ہوگا- تم ان لوگوں کو تربیت ضرور دو، لیکن انھیں --- بی بی سی کی خبریں پڑھنے والے مت بناؤ- یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے بعد کلاسیں ختم کردی گئیں-

تقریباً اسی زمانے میں، چند تربیت یافتہ ایکٹروں کو، جنہیں میں جانتی تھی، ایک چینل میں نوکری مل گئی جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس چینل میں ان کیلئے جگہ ہوگی- ان کو ایک نیوز چینل نے ایک ایسے شو کیلئے میزبان کے طور پر ملازمت دی جو عموماً افشائے راز کیا کرتا تھا- آپ کو پتہ ہے ایسے شوز جن میں کسی ایک شخص کی کہانی دکھاتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوئی ہیں یا جو تکلیفیں اس نے جھیلی ہیں اس کا تذکرہ کرتے ہیں یا کسی کا اس کی لاعلمی میں پیچھا کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کا سامنا کرتے ہیں-

تربیت یافتہ ایکٹر حضرات، ایک برافروختہ صحافی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے --- ناظرین کے جذبات کو بہتر طریقے سے اپنی مرضی کے تابع کرلیتے ہیں-

اس کے دوسری جانب، آپ سونچئے کہ ایک شخص اینڈی بوڈل اپنے ایک حالیہ بلاگ 'مائنڈ یور لینگویج میں' جو دی گارڈین کی ویب سائٹ پر موجود ہے، کیا کہتا ہے- عام طور وہ مبالغہ کے خلاف ہے کیونکہ یہ لفظ کے معنی کو بہت ہلکا کردیتا ہے، صحافت میں اس کے استعمال کے بارے میں لکھتا ہے؛

"مبالغہ تبصروں میں یا تنقیدی مقالوں میں تو کارآمد ہوسکتا ہے مگر خبروں کی رپورٹنگ میں اس کا کوئی مقام ہونے کا سوال ہی نہیں ہے'' ۔ ۔ ۔

خبروں کا کوئی صفحہ آج آپ کھول کر دیکھ لیں آپ کو مشکل سے کوئی پالیسی ملیگی جو اہم یا اعلیٰ ترین نہ ہو، کوئی فیصلہ جو یادگار فیصلہ نہ ہو، کوئی تقریر جو معرکۃ الارا تقریر نہ ہو، کوئی تنقید جو لعنت ملامت سے بھری نہ ہو، کوئی مذاکرات جو بےحد اضطراب کے عالم میں نہ کیئے جائیں، کوئی دھماکہ جو تباہی پھیلانے والا نہ ہو، کوئی بڑی کمپنی جو غیرمعمولی یا کوئی اکثریت جو بےحد وسیع نہ ہو۔ ۔ ۔ بحران---" ایک بےحد خطرے یا مشکلات کا دور"--- جو یوکرین، شام اورجنوبی سوڈان کے حالات کو بیان کرنے کیلئے ایک مناسب اصطلاح ہوسکتی ہے- لیکن کیا جنوبی کوریا کے قومی پکوان کی مقبولیت میں تھوڑی کمی پر اسے استعمال کرنا مناسب ہے؟

"مبالغہ، فن خطابت کی ایک صنف ہے، جس کی تعریف ارسطو، سیسرو اور کوئنٹیلین جیسے فلسفی کرتے تھے کیونکہ یہ جذباتی سچ بیان کرنے کیلئے ہوتا ہے--- خبریں اکٹھا کرنے والے صحافیوں کا کام مقدموں میں دلائل یا احساسات کی ترویج کرنا نہیں- ان کا کام ہمیں حقائق سے باخبر رکھنا ہے- بلکہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں، کہ اگر کوئی صحافی بڑھا چڑھاکر خبریں دیتا ہے، تو یہ بالکل مبالغہ نہیں ہے بلکہ سیدھا سیدھا دھوکہ دہی ہے-"

جی ہاں، بالکل، مختلف طریقوں سے پاکستان کا خبروں کے میڈیا کا ایک حصہ، چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا خبروں کا، اپنے ناظرین کی تعداد بڑھانے کیلئے جھوٹ اور دھوکہ کا کھیل کھیلتا ہے- ایسا یقینی طور پر صرف پاکستان میں نہیں ہے- لیکن یہاں، لگتا ہے کہ کوئی باشعور آواز اس کی روک تھام کیلئے اٹھتی ہوئی نظر نہیں آتی- یہاں تک کہ چند سال پہلے بڑے نیوز چینل کے درمیان طے پایا ایک ضابطۂ اخلاق بھی ہوا میں اڑا دیا گیا، جس کا مظاہرہ کراچی ایرپورٹ پر حملے کے دوران اس واقعہ کو نشر کرنے کے موقع پر کیا گیا- اس حالیہ بھگدڑ کے موقع پرتو یہ ادارے اس حد تک چلے گئے کہ سیکیورٹی فورسز کی نقل وحرکت کا بھی اعلان کرنا شروع کردیا، جو اس سے پہلے مناون پولیس اکیڈمی میں بھی ہوا تھا-

کیا ہم اپنے صحافیوں سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ واپس جاکر برائے مہربانی اس مینوئل کو پہلے پڑھ لیں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

ہاجرہ ممتاز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Akhtar Jul 01, 2014 12:54pm
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
عامر ابرھیم Jul 01, 2014 01:16pm
توازن شائید ھمارا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔ ۔ ۔ جس قوم کا مذہب توازن ہو ، اسے امت وسط کہا گیا ہو ۔ اسکی مذہبی تعبیر پہ عدم توازن کا رویہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ ۔ ۔ اسکے لئے نظام تعلیم میں نصاب اور اساتذہ کی تربیت کی جائے اور میڑک کی سطح سے اس پہ امتحانی عمل میں شامل کیا جائے تو چند عشروں میں اچھے نتائج نکل سکتے ہیں ۔ ۔ خود کار طریقہ سے اصلاح محال ہے۔
M Mazhar ul Islam Jul 01, 2014 02:25pm
In Pakistan the media houses r trading houses . .nothing less nothing more . . .a degenerated society is captured by thugs. . Cheaters.
Nauman Jul 03, 2014 07:02am
Given that you picked "پاکستانی ہیجان پرست ہیں اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھتے رہیں تو ان کے جذبات کو بھڑکانا ضروری ہے" as a highlight for your article (which by the way is a good article) shows that you are somewhat guilty of the same issue as the media you are criticising :)

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024