درمیانی راستہ
کچھ عقائد زندگی کو اپنانے کی بات کرتے ہیں جبکہ کچھ میں اس کی نفی کی جاتی ہے- اسلام کا پیغام اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو زندگی کے تمام معاملات میں اعتدال کا رستہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے- یہ اپنے والوں کو دنیاوی زندگی کی ضروریات نظرانداز کرنے نہیں دیتا وہیں دوسری جانب یہ انہیں روحانی زندگی کو بھی نظرانداز نہیں کرنے دیتا بلکہ یہ ان دونوں کے درمیان ایک توازن برقرار رکھنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے-
مغرب میں سولہویں صدی میں جدیدیت کے آغاز سے ہی، اس بات کی بہت کوششیں کی گئیں کہ مذہب کو عام لوگوں کی روزمرہ زندگی سے خارج کر دیا جائے- مذہب کو خاص موقعوں جیسے پیدائش، شادی اور موت تک محدود کر دیا گیا-
اس کے برعکس، اسلام میں مذہب کو کسی بھی شخص، خاندان، کمیونٹی اور قوم کے لئے ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے- اس کا مقصد، زندگی کے مادی اور روحانی پہلوؤں میں ایک توازن قائم کرنا ہے- توازن کا مطلب مادی اور روحانی پہلوؤں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہر گز نہیں اور نہ ہی اس کا مطلب اپنے وجود کو دو برابر کے حصوں میں بانٹ دینا ہے کہ بارہ گھنٹے مذہب کے لئے اور بقیہ بارہ دنیاوی کاموں کے لئے-
یہاں توازن کا مطلب معاشرے میں کسی کے مختلف کنکشنز کے حوالے سے عائد ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے ہے- دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ کسی کی پیدائش سے اس کے معاشرے کے مختلف آرگنز کے ساتھ کنکشنز اور رشتے بن جاتے ہیں جیسے کہ خاندان کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ، محلے والوں کے ساتھ، کمیونٹی اور ملک کے ساتھ بلکہ وسیع پیرائے میں دیکھا جائے تو انسانیت کے ساتھ بھی- ان کنکشنز یا رشتوں میں دو طرفہ حقوق اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کی ادائیگی اسے نہ صرف کرنا پڑتی ہے بلکہ ایک توازن بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے-
سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو اپنے خالق کے ساتھ اپنا روحانی رشتہ مظبوط بنانا ہوتا ہے- اس سے سماج میں امن اور انسانیت کا فروغ ہوتا ہے جس سے ترقی کی رہیں استوار ہوتی ہیں- یہ اپنے ماننے والوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم ہے-
کسی فرد کی جسمانی زندگی، وقت اور جگہ کے حساب سے محدود ہے جبکہ اس کی روح لامحدود- دنیا میں کئے جانے والے اچھے کاموں سے زمین پر معاشرے کی تعمیر ہوتی ہے جبکہ آخرت بھی سنورتی ہے- نبی پاک (ص) نے فرمایا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے-
مادی اور روحانی زندگی کی تعمیر، ایک دو منزلہ گھر بنانے جیسی بات ہے- اگر کوئی شخص دو منزلہ گھر بناتا ہے تو سب سے پہلے وہ اس کے لئے ایک مناسب جگہ کا انتخاب کرتا ہے، اس کا ڈیزائن بناتا ہے اور پھر جتنے منزلہ گھر بنانا ہوتا ہے اسی حساب سے ان کی بنیادیں ڈالتا ہے- قرآن بھی ایسا ہی سوال کرتا ہے : "تو کیا کوئی شخص اپنی عمارت کی بنیاد تقویٰ اور الله کی خوشنودی پر رکھے گا یا پھر وہ جو اپنی عمارت کی بنیاد کسی نامعلوم ڈھلوان پر رکھنا چاہے گا جو کہ کسی بھی لمحے گر جائے ...؟" (9:109).
زندگی کے مادی اور روحانی پہلوؤں میں توازن برقرار رکھنے کے حوالے سے رسول اکرم (ص) کی زندگی ایک روشن مثال ہے- وہ زندگی سے متعلق تمام کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے جیسے اپنا روزگار کمانا، اپنی فیملی رکھنا، سماجی رشتوں کو نبھانا اور ریاست کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا-
اس کے ساتھ ساتھ، وہ اپنی زندگی کے روحانی پہلو کا بھی خیال رکھتے تھے- وہ راتوں کو جاگ کر عبادت کیا کرتے تھے، باقائدگی سے نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے تھے تا کہ وہ اپنے خالق کے ساتھ اپنا روحانی رشتہ برقرار رکھ سکیں- وہ اپنے اس پاس الله کی موجودگی کو محسوس کرتے تھے- اس بات کی نشاندہی قرآن میں بھی کی گئی ہے- اسلام اپنے ماننے والوں کو دونوں دنیاؤں کی اچھائی چاہنے کا پیغام دیتا ہے- اپنے ماننے والوں کے لئے یہ قرانی دعا بھی ہے (2:201) "اے پروردگار ہمیں اس دنیا اور آخرت کی اچھائی عطا فرما اور ہمیں آگ کی لپٹوں سے بچا لے"- یہ دعا ہمیں دونوں دنیاؤں کی اچھائی طلب کرنا سکھاتی ہے-
زندگی کا حتمی مقصد کامیابی کا حصول ہے تاہم یہ اعتدال میں پوشیدہ ہے- اعتدال کا مطلب یہ ہے کہ آپ دو انتہاؤں کی پوزیشن کو چھوڑ کر درمیانی رستے کو ترجیح دیں- مثال کے طور پر جب آپ چولہے پر کھانا پکا رہے ہوتے ہیں تو آنچ اتنی تیز بھی نہیں ہونی چاہئے کہ اس سے کھانا جل جائے اور نہ ہی اتنی دھیمی کہ کھانا پک ہی نہ سکے بلکہ اسے پکانے کے لئے آنچ درمیانی رکھنی ہوتی ہے-
اسی طریقے سے اسلام اپنے ماننے والوں کو کنجوس بھی نہیں بننے دیتا اور نہ ہی انہیں فضول خرچی کی اجازت دیتا ہے- نہ وہ انہیں مادی زندگی سے بہت زیادہ متاثر ہونے دیتا ہے اور نہ ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ روحانی زندگی کی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہ کرے- وہ دونوں میں ایک توازن برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے- اس لئے تو کسی کو دنیا ترک کر کے رہبانیت اختیار کرنے کی نہیں بلکہ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کی تلقین کی گئی ہے- اسلام کسی پر جارحیت کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی بزدلی کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کا کہتا ہے-
لہٰذا ہر کسی کو زندگی کے تمام معاملات میں معتدل ہونا چاہئے، چاہے وہ کھا رہا ہو، سو رہا ہو، پڑھ رہا ہو، کوئی ورزش کر رہا ہو یہاں تک کہ اگر وہ اپنا کام بھی کر رہا ہو- کسی بھی کام کے دوران ضرورت سے زیادہ شدت سے تیز مزاجی پیدا ہوتی ہے جو کہ فرد کی صحت اور معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے-
قرآن مجید کہتا ہے؛
"اور الله نے تمہیں جو (دولت) عطا کی ہے، اس سے آخرت میں گھر بناؤ اور اس دنیا میں اس نے تمہیں جو نعمتیں عطا کی ہیں انہیں مت بھولو" (28:77).
ہمارا وقت بہت کٹھن ہے- ہم مصروف شہروں کے پریشان کن ماحول میں رہتے ہیں اور مادیت کے چکر میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں- روحانی سرگرمیاں نایاب ہوتی جا رہی ہیں- مادی خوشحالی کی اس دوڑ کو اگر روکا نہیں گیا ہمارا مستقبل مایوس کن ہو گا- لہٰذا ہمیں ایک درمیانی اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
تبصرے (1) بند ہیں