کالے جادو کے سامان کی چڑیا گھر میں تلاش
لاہور: لاہور کے چڑیا میں آنے والے تمام افراد تفریح کی غرض سے نہیں آتے، بلکہ کچھ کا مقصد کافی شرپسندانہ ہوتا ہے اور وہ یہاں ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں جنہیں کالے جادو کے کسی عمل میں استعمال کیا جاسکے۔
جعلی پیروں اور عاملوں کی جانب سے کالے جادو کے ذریعے پریشانی میں متبلا افراد کے تمام پریشانیوں سے نجات کا لالچ دیا جاتا ہے۔
جانوروں اور پرندوں کے جسمانی اعضاء کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے کیونکہ یہ عطائی پیر اپنے پاس آنے والوں سے کالے جادو کے عمل میں ان اشیاء کا استعمال کرنے لیے طلب کرتے ہیں۔
چڑیا گھر کے ایک اہلکار کے مطابق کالے جادو میں استعمال کی جانے والی اشیاء کی تلاش میں یہاں آنے والے افراد کا تعلق ہر شعبۂ زندگی سے ہوتا ہے مگر ان میں ایک قدر مشترک یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی اپنا مقصد بیان کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، یعنی وہ یہ کام کس پیر کے کہنے پر کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’متعدد افراد جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے، وہ الو کا خون مانگتی ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور کے چڑیا گھر میں اس وقت کوئی الو موجود نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’کچھ افراد ہاتھی کے پیشاب کے حصول کے خواہشمند ہوتے ہیں جبکہ دیگر ریچھ یا شیر کے ایک یا دو ناخن طلب کرتے ہیں، ایک مرتبہ تو ایک شخص نے پوچھا تھا کہ کیا ہم اسے خارپشت کے کانٹے فراہم کرسکتے ہیں، اس طرح کی مضحکہ خیز چیزوں کی فہرست کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی۔‘‘
چڑیا گھر کے اہلکار بتایا کہ چند سال پہلے کے ایک مشتعل ریچھ نے حملہ کرکے پنجرے کے اندر موجود ایک نومولود بچے کو ہلاک کردیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ حادثہ بھی ایک پیر کی دی گئی ہدایت پر عمل کرنے کے نتیجے میں رونما ہوا تھا، کیونکہ اس پیر نے والدین کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے بچے کو ایک ریچھ کے اتنے قریب لے جائیں کہ بچہ ریچھ کی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کرے، المیہ یہ ہوا کہ جب باپ بچے کو پنجرے کے قریب لے کر گیا تو ریچھ نے جارحانہ ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ مذکورہ اہلکار نے مزید بتایا کہ چڑیا گھر میں اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد کو بھی توہم پرستی میں مبتلا دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سنیئر بیوروکریٹ ایک مخصوص وقت پر یہاں شیروں کو گوشت ڈالنے کی ایک رسم کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔
چڑیا گھر کے اہلکار نے بتایا کہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر اپنے ہمراہ کیلے لے کر آیا اور ہاتھی کو کھلانے کی ناکام کوشش کرتا رہا، اس ڈاکٹر نے اعتراف کیا کہ اسے ایسا کرنے کے لیے کسی بابا نے ہدایت کی تھی۔ اگرچہ چڑیا گھر کے نگرانوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی ایسی فرمائشوں کو مسترد کردیا جاتا ہے مگر تواہم پرستوں کی تلاش یہیں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی۔
لاہور میں مقیم جانوروں کی کھالوں میں بھس بھر کر ان کا مجسمہ تیار کرنے کے ایک ماہر محمد جہانگیر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اکثر ایسے افراد آتے ہیں جو جانور یا ان کے جسمانی اعضاء کی مانگ کرتے ہیں۔
انہوں نے ڈان کو بتایا 'متعدد افراد اسی مقصد کے لیے آتے ہیں اور ان میں خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے'۔ محمد جہانگیر کا مزید کہنا تھا کہ بعض مرتبہ کالے جادو کرنے والے افراد اپنے صارفین کو اس طرح کی چیزوں کے انتظام کے لیے بھی کہتے ہیں، مگر ان پیروں کی طلب کردہ قیمت زیادہ ہوتی ہے اس لیے بیشتر افراد اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے مردہ جانور یا ان کے اعضاء مختلف مقامات سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان معاملات کے حوالے سے الو کی مانگ بہت زیادہ ہے۔
ان کے بقول 'لوگ الو کا پورا جسم، ایک آنکھ، کوئی خاص ہڈی، خون یا چونچ وغیرہ مانگتے ہیں، جبکہ جنگلی سؤر کی ہڈیوں کی طلب بھی بہت زیادہ ہے'۔
تاہم محمد جہانگیر نے فوری طور پر واضح کیا کہ وہ اس کاروبار کا حصہ نہیں جو ان کے بقول شہر کی پالتو جانوروں کی مارکیٹ سے متعلق افراد کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔
پولیس کی جانب سے اکثر ایسے پیروں اور عاملوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جو کالے جادو کے ماہر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر شیخوپورہ پولیس نے ایسے ہی جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کرنے والے ایک جعلی پیر بشارت کو اپریل 2014ء میں ایک خوفناک واقعے کے بعد حراست میں لے لیا تھا، جب اس نے بدی کی طاقتوں کو جسم سے باہر نکالنے کی کوشش میں مبینہ طور پر ایک بزرگ خاتون کا سر ہی کاٹ ڈالا تھا۔
بشارت نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس نے خاتون کا سر ایک میدان میں دبا دیا تھا اور جسم نہر میں پھینک دیا تھا۔ اس خاتون نے بشارت سے 'بدی کی طاقتوں' سے نجات کے لیے رابطہ کیا تھا۔
اسی طرح کا ایک اور کیس پیر امانت علی کا تھا، جس کا اصل نام خالد جاوید ہے۔ اس نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام پھیلایا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ہر قسم کے مسائل مثلاً محبت میں ناکامی، بانجھ پن، خاندان میں تناﺅ، جادو کے توڑ اور دیگر مسائل کے شکار افراد کی مدد کرسکتا ہے۔
پولیس کی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ اس پیغام کو پڑھ کر کرامت علی نامی ایک شہری نے اپنے بیمار بچے کا علاج کروانے کے لیے امانت علی سے رابطہ کیا۔ اس پیر نے ایک مردہ الو کی خریداری کے لیے دس ہزار روپے طلب کیے اور دعویٰ کیا کہ مارکیٹ میں نایاب کالے پرندے کی مدد سے بچے کو شیطانی مرض سے نجات دلانے میں مدد ملے گی۔
اس جعلی پیر کا دعویٰ تھا کہ علاج میں ناکامی کی صورت میں رقم واپس کردی جائے گی۔
تاہم مہینوں بعد بھی جب بیماری میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آئے تو کرامت نے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا، مگر جعلی پیر نے ایزی پیسہ سروس کے ذریعے مزید رقم فراہم کرنے کا مطالبہ کردیا۔
بعد ازاں کرامت کی شکایت پر پولیس نے اس جعلی پیر کو گرفتار کرکے پی پی سی کی مختلف شقوں 506 ، 386، 420، 468 اور 471 کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔