• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:52pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:52pm

شمالی وزیرستان کے دہشت زدہ بچے امن کی تلاش میں

شائع June 25, 2014
--- رائٹرز فوٹو
--- رائٹرز فوٹو

بنوں : خوشحالی توری خیل گاﺅں سے تعلق رکھنے والی سات سالہ بچی نادیہ پشتو میں امریکی ڈرون کی جان لیوا آواز کا منظر کھینچ رہی ہے۔

اس نے شرماتے ہوئے ایک انگلی اپنے سنہرے بالوں کی جانب اٹھاتے ہوئے کہا 'میں اپنے سروں کے اوپر بھنبھناہٹ کی آواز سن کر خوفزدہ ہوجاتی تھی، میری سہلیاں اپنے گھروں کی طرح بھاگ جاتی تھیں، وہ بھنبھناہٹ واقعی ڈرا دینے والی ہوتی تھی مگر بم دھماکوں کی آواز زیادہ بدترین ہوتی تھی '۔

متعدد تجزیوں، جن میں شمالی وزیرستان ایجنسی میں بڑے پیمانے کے فوجی آپریشن یا بغیر پائلٹ بمبار ڈرونز کے حوالے سے سوالات اور دیگر پہلوﺅں پر بات کی جاتی ہے، کے برعکس نادیہ ایک خوفناک خواب میں زندگی گزار رہی ہے۔ وہ تفصیل سے اس خوف کے بارے میں بتاسکتی ہے جو سیکیورٹی فورسز یا عسکریت پسندوں کی جانب سے فائر کئے ہر مارٹر گولے یا آرٹلری وغیرہ کی وجہ سے قبائلی بچوں کے دلوں میں ابھر آتا ہے۔

نادیہ ان ہزاروں افراد میں سے ایک ہے جو قبائلی علاقہ جات میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد محفوظ پناہ گاہ کے لئے بنوں کے بکا خیل علاقے کا رخ کررہے ہیں۔

آپریشن ضرب عضب کے آغاز پر لگائے گئے کرفیو میں نرمی کے بعد نادیہ ایک پک اپ ٹرک میں اپنے خاندان کیساتھ یہاں پہنچی۔

اگرچہ راشن کی کمی اور ان بے گھر افراد کی جانب سے قدامت پرست قبائلی روایات کے مطابق کیمپوں میں قیام سے انکار کی خبریں گردش کررہی ہیں، تاہم جنگ زدہ علاقے سے آنے والے بچوں کو پناہ گاہ کی تلاش اور روزمرہ کی بنیادوں پر بقاءکے سوال پر زیادہ پریشانی نہیں۔

بلکہ ان ننھے فرشتوں کیلئے بنوں آنے کا مطلب یہ ہے کہ اب انہیں جنگ کی دل دہلا دینے والی آوازیں مزید نہیں سننا پڑیں گی۔

اسوری گاﺅں سے بنوں پہنچنے والا دس سالہ نعمان سات گھنٹے کا پیدل سفر کرکے پہنچا۔ اس کا کہنا ہے کہ بیشتر دیہاتی صرف کپڑوں کو ہی اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ تاہم اس کا خاندان خوش قسمت رہا جو اپنے ساتھ مویشیوں سمیت کچھ اثاثے بھی ساتھ لانے میں کامیاب رہا۔

سفر کی تھکان اور گھر چھوڑنے کے دکھ کے باوجود، جسے ممکنہ طور پر وہ دوبارہ نہیں دیکھ سکے گا، نعمان کا کہنا ہے کہ وہ اطمینان محسوس کررہا ہے۔

اس کے بقول 'میں خوش ہوں، اب مجھے ڈرونز یا لڑاکا طیاروں کی جانب سے اپنے دیہات پر بمباری کو نہیں دیکھنا پڑے گا، یہاں آکر میں اب خود کو محفوظ سمجھ رہا ہوں '۔

نعمان کے والد قدرت اللہ کا کہنا تھا کہ ان کے دیگر بچے بھی راتوں کو علاقے میں ڈرون اور طیاروں کی گونج سے دہشت زدہ ہوجاتے تھے، وہ ان آوازوں سے بیزار ہوچکے تھے۔

فاٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ارشد خان کا کہنا تھا کہ اٹھارہ جون ، جب کرفیو کے دورانیے میں نرمی کی گئی، کے بعد سے اب تک ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد جنگ زدہ علاقے سے نقل مکانی کرچکے ہیں اور اب وہ بنوں، ڈیرہ اسمعیل خان، لکی مروت اور پنجاب کے دیگر شہروں میں مختلف خاندانوں کیساتھ مقیم ہیں۔ کچھ افراد نے بنوں میں حکومتی اسکولوں اور سرکاری عمارات میں بھی پناہ لی ہوئی ہے۔

بنوں میں ایک اسکول میں اپنے والدین کے ساتھ پناہ لینے والی لڑکی اپنے تاثرات کو اظہار کر رہی ہے۔ رائٹرز فوٹو
بنوں میں ایک اسکول میں اپنے والدین کے ساتھ پناہ لینے والی لڑکی اپنے تاثرات کو اظہار کر رہی ہے۔ رائٹرز فوٹو

نو سالہ شاہینہ کے مطابق اس کا خاندان خوش قسمت ہے جو مریان کے ایک سرکاری اسکول میں پناہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ وہ بتاتی ہے ' طیاروں کی آوازیں ڈرا دینے والی ہوتی تھیں، میرے اسکول کی سہلیاں اور میں ہر بار انہیں سن کر خوفزدہ ہوجاتے تھے'۔

محققین اور سماجی ماہرین کا ماننا ہے کہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے بچے نفسیاتی دباﺅ کا شکار ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں زبردستی مسلح تنازعے میں خودکش بمبار یا چائلڈ سولجرز کی شکل میں شامل کردیا جاتا ہے، جبکہ بے گھر ہونے سے بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ایسے متعدد بچے اور بچیاں تعلیم سے بھی محروم ہیں کیونکہ اسکولوں کو عسکریت پسندوں کے قبضے کے ڈر سے بند کردیا گیا، جبکہ باجوڑ، مومند اور خیبرایجنسی میں آپریشنز کے باعث اکثر بچے آئی ڈی پیز کی حیثیت سے کئی برسوں سے کیمپوں میں پڑے ہیں اور اسکولوں سے دور ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں افتخار حسین کے خیال میں ان بچوں پر ان مسلح تنازعات کے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان کے بیشتر مریضوں کا تعلق بھی قبائلی علاقے جات جیسے جنوبی اور شمالی وزیرستان ایجسنیوں سے ہی ہوتا ہے۔

اس خطے کے افراد کیلئے ذہنی امراض کوئی نئی بات بھی نہیں، 2008ءکے زلزلے اور سوات و فاٹا کے تنازعات نے بچوں اور خواتین کو ذہنی اور نفسیاتی سماجی صحت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے، جبکہ مردوں سے محروم متعدد خاندانوں کو دیگر افراد کے ہاتھوں مشکل حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

سوسائٹی فار پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ کے خیبرپختونخواہ کے سربراہ جہانزیب خان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ شمالی وزیرستان نفسیاتی تناﺅ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'جنگ اور بم دھماکوں کے خوف نے ان کے ذہنوں کو بری طرح انتشار کا شکار کردیا ہے، ان بچوں کو نفسیاتی و سماجی مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ وہ جنگ اور بموں سے اپنا دھیان ہٹاسکیں'۔

انھوں نے مزید کہا کہ پناہ گاہ، خوراک اور نیوٹریشن بنیادی ضروریات ہیں مگر اس کے ساتھ ذہنی ماہرین کی مشاورت کی اشد ضرورت ہے۔

جہانزیب خان کے مطابق خیبرپختونخواہ اور فاٹا کے ماضی کے مسلح تنازعات سے متاثر ہونے والی آبادی کا 45 فیصد سے زائد حصہ بچوں پر مشتمل ہے، متعدد کو ذہنی امراض نے اپنا شکار بنالیا ہے کیونکہ ان کی بحالی نو کی کوششوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

ان کے بقول 'حکومت کو ماضی سے سبق سیکھ کر ان بچوں کو دوستانہ ماحول فراہم کرنا چاہیے کیونکہ یہ موجودہ وقت میں ان کی فوری ضرورت ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 29 اپریل 2025
کارٹون : 28 اپریل 2025