پاکستان میں طیاروں کا سیاسی کردار
اسلام آباد: پاکستان کی سیاسی تاریخ میں طیاروں کا ایک اہم کردار رہا ہے اور پیر کو ڈاکٹر طاہر القادری کے طیارے کا رُخ لاہور کی جانب موڑنا بھی اب اس تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔
ڈاکٹر قادری پہلی ایسی شخصیت نہیں جنہوں نے جہاز سے اُترنے کے لیے کچھ ضمانتیں حاصل نہ کی ہوں۔
ان سے پہلے وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان پہنچنے کے بعد طیارے کے اندر انتظامیہ سے مذاکرات کر چکے ہیں۔
اسی طرح جنرل (ر) مشرف نے خود بھی 1999ء میں ایک ہائی جیکنگ ڈرامے کے بعد بغیر کسی خون خرابے کے فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔
پیر کو اسلام آباد اور لاہور ہوائی اڈوں کے مناظر نے ایک مرتبہ پھر ان یادوں کو تازہ کر دیا، جب چھ سال پہلے مشرف نے سات سالہ جلا وطنی ختم کر کے لندن سے پاکستان آنے کی کوشش کے بعد نواز شریف کو سعودی عرب چلتا کر دیا تھا۔
مشرف حکومت کا مؤقف تھا کہ شریف برادران کو پاکستان واپس نہیں آنا چاہیٔے کیونکہ دونوں دس سال تک سیاست سے دور رہنے کا ایک معاہدہ کرنے کے بعد سعودی عرب چلے گئے تھے۔
تاہم، 23 اگست، 2007ء کو سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کہ وہ ملک واپس آنے میں آزاد ہیں، نواز اور شہباز شریف نے ہر صورت میں پاکستان آنے کا اعلان کر دیا۔
دس ستمبر کو نواز شریف پاکستان مسلم لیگ ن کے کچھ ارکان اور صحافیوں کی ایک ٹیم کے ہمراہ پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے لندن سے پاکستان پہنچے، جہاں ایک خصوصی طیارہ انہیں زبردستی سعودی عرب لے جانے کے لیے منتظر تھا۔
نواز کے وطن لوٹنے سے دو دن پہلے، لبنان کے سیاست دان رفیق حریری اور سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ مقرم بن عبدالعزیز اسلام آباد آئے تھے تاکہ سابق وزیر اعظم کو ایئر پورٹ لینڈ کرنے کے کچھ گھنٹوں بعد ایک خصوصی طیارے سے واپس سعودی عرب لے جا سکیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے کے تقریباً ایک مہینے بعد نواز شریف 25 نومبر کو پاکستان واپس آ گئے۔
سابق صدر زرداری اپریل 2005ء میں لاہور ایئر پورٹ پر اترے تو انہیں طیارے کے اندر ہی حراست میں لے لیے گیا۔
ایئر پورٹ پر موجود پی پی پی کارکنوں کو زرداری کا استقبال نہیں کرنے دیا گیا، یہاں تک کہ زرداری کے ہمراہ دبئی سے آنے والے صحافیوں کے ساتھ بھی سیکورٹی اہلکاروں نے بُرا سلوک کیا۔
اگست، 1988ء بہاولپور میں سابق صدر اور فوجی سربراہ ضیاء الحق کے طیارہ کو پیش آنے والا حادثہ اور مشرف کے طیارے کو کراچی میں لینڈ کرنے کی اجازت نہ ملنا ، دو ایسے واقعات ہیں جنہوں نے ملک میں سیاسی منظر نامہ تبدیل کر دیا تھا۔
جنرل ضیاء کے ایک پراسرار طیارہ حادثہ میں ہلاکت کے بعد اگلے نو سالوں (1997-1988)کے دوران چار مرتبہ الیکشن ہوئے۔
بارہ اکتوبر، 1999ء کو اُس وقت جبکہ جنرل مشرف کولمبو سے کراچی آنے والی پرواز میں سوار تھے، اس دوران اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
مشرف پی آئی اے کے جس کمرشل طیارے میں سوار تھے، اسے کراچی ایئر پورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے بعد طیارہ اُس وقت تک پرواز کرتا رہا جب تک زمین پر موجود فوجی کمانڈروں نے حکومت کا تختہ اُلٹ کر نواز شریف کو گرفتار نہیں کر لیا۔
بعد میں نواز شریف پر ہائی جیکنگ کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔
سن 2008 میں الیکشن کے بعد مشرف دور کےآخری دنوں میں ایسی افواہیں زیر گردش رہیں کہ انہیں بیرون ملک لے جانے کے لیے ایک خصوصی طیارہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر موجود ہے۔
مشرف نے ایسے کسی طیارے کی موجودگی سے انکار کیا لیکن بعد میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر وہ بطور صدر مستعفی ہوئے اور ملک چھوڑ کر برطانیہ میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔
گزشتہ سال مئی میں عام انتخابات سے دو مہینے قبل مشرف اپنی نئی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کراچی واپس آگئے۔
یکم اپریل کو جنرل (ر) مشرف ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی آئے ۔ اس مرتبہ بھی ان کے طیارے کا رُخ لاہور کی جانب موڑ دیا گیا، تاہم اس کی وجہ سیاسی نہیں بلکہ خراب موسم تھا۔
اس سے پہلے مارچ، 1981ء میں 135 مسافروں اور عملے کے 9 ارکان کو کراچی سے پشاور لے جانے والی پرواز کو ہائی جیک کر کے پہلے کابل اور پھر دمشق لے جایا گیا تھا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی سربراہی میں کام کرنے والی ایک تنظیم الذولفقار نے اس ہائی جیکنگ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تیرہ دنوں بعد طیارہ کی ہائی جیکنگ اس وقت ختم ہوئی، جب فوجی حکمران جنرل ضیاء کچھ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضا مند ہو گئے۔