مری قبیلے کے نئے سربراہ، حکومت کے ساتھی
حالانکہ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے انقلابی والد کی شاندار زندگی سے خود کو دور کرلیا تھا، تاہم وہ ان کے فرزندوں میں سے واحد فرد تھے جو خیر بخش مری کی زندگی کے آخری لمحات سے پہلے ان کے پاس موجود تھے۔
جمعرات کو چنگیز خان مری نے اپنے والد کی جگہ مری قبیلے کے سردار کا منصب حاصل کیا ہے۔
دستار بندی کی تقریب میں ذیلی قبائل کے سردار ان کے اردگرد موجود تھے، انہوں نے مری قبیلے کے بڑے نوابزادے کو دستار پہنائی۔ دستار بندی کی اس تقریب کے بعد اب انہیں نواب کے لقب سے پکارے جانے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔
نئے نواب نے اپنے والد اور چھوٹے بھائی کے ساتھ افغانستان سمیت تمام ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ افغانستان میں مرحوم خیر بخش مری نے علیحدہ وطن کے حصول کی نئے سرے سے جدوجہد کے لیے خود کو تیار کیا تھا۔
خیر بخش مری حیدرآباد جیل سے رہا ہونے کے بعد افغانستان پہنچے تھے۔ ضیاءالحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعدا نہیں رہا کیا گیا تھا۔
ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ چنگیز خان مری ستّر کی دہائی کے پُرامن دور میں افغانستان میں تھے، اور افغانستان میں فساد کے دور میں اپنے والد کے ساتھ منسلک نہیں تھے۔
اپنے دیگر بھائیوں کے برعکس چنگیز مری اپنے آبائی صوبے کی روایتی سیاست میں شامل ہوگئے تھے۔
انہوں نے مرکزی دھارے سے ہم آہنگ ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی تھی، ان کا یہ اقدام ان کے والد کے سیاسی نظریات سے یکسر مختلف تھا۔
جب انہوں نے جمہوری طریقہ کار کو منتخب کیا تو ان کے علاقے کے بہت سے لوگ ان سے ناراض ہوگئے تھے۔
ان کا یہ اقدام انہیں بلوچ قوم پرستی سے دور لے گیا، جس میں جنرل مشرف کی جانب سے آٹھ برس پہلے نواب اکبر بگٹی کی بغاوت کو کچلنے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن کے بعد جس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا ہے۔
یہ محض مرکزی دھارے کی سیاسی قوتوں کے ساتھ ان کی وابستگی ہی نہیں تھی، جس نے چنگیر خان مری کو اپنی قوم میں اجنبی بنادیا تھا۔
ابتداء ہی سے ان کے ناقدین نے انہیں اپنے والد کی سیاست کا ایک مخالف کہا تھا، اگرچہ وہ سرگرم سیاست میں کافی دیر سے داخل ہوئے تھے۔
ایسے دوست جو اُنہیں قریب سے جانتے ہیں، نہیں سمجھتے کہ تقریباً ساٹھ برس کی زندگی میں انہیں سیاست سے کبھی بہت زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ایسے لوگ جو ان کے خاندان کے سیاسی کلچر سے متاثر ہیں، سمجھتے ہیں انہیں اپنے لیے ایک محفوظ کردار مل گیا ہے۔
ان کے ایک قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ ’’فطرتاً وہ ایک مدافعانہ شخصیت کے مالک ہیں، جو غیر ضروری خطرات سے دور رہ کر اپنی زندگی جینا چاہتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی چنگیز مری اپنے خاندان خصوصاً اپنے والد کے ساتھ بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے یاد دلایا کہ چنگیز مری نے اپنے والد کے آخری دنوں کے دوران ان کی دیکھ بھال کی تھی۔
یہ نئے نواب اپنے بہن بھائیوں میں سے واحد ہیں، جو پاکستان میں مقیم ہیں۔ ہربیار مری لندن میں رہتے ہیں، اور بلوچ مزاحمتی تحریک کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
ان کے دیگر بھائیوں میں سے میران، غازیان اور ہنزہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دبئی میں قیام پذیر ہیں، جبکہ ان کی بہنیں لندن میں رہتی ہیں۔
ان کے پانچویں بھائی بالاچ مری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 2007ء کے دوران افغانستان میں نیٹو کے ایک حملے میں مارے گئے تھے۔
چنگیز خان مری کو مری کے قبیلے کا سردار بنائے جانے پر بہت سے بلوچ سوالات اُٹھارہے ہیں، اور اسے ضلع کوہلو میں خاص طور پر قبائلی بنیاد سے انحراف اور بلوچ بغاوت کے آغاز کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اعلٰی سطح پر ایک معمول کی تبدیلی ہے، اور اس سے مری سربراہی میں جاری جدوجہد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس خاندان سے قریب ایک سرگرم کارکن نے بتایا کہ ’’اس سے اپنے حقوق کے لیے لڑنے والے بلوچوں کے کردار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ محض ایک معمول کی تبدیلی ہے، اور محض ایک کی، اس لیے قبیلے کے سردار کا بڑا بیٹا ہی اپنے والد کی جگہ لے سکتا ہے۔‘‘
ایک اور کارکن نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں ایک فرق ہے۔ چنگیز کو نواب صاحب کی قبائلی میراث کی وراثت حاصل ہوئی ہے، لیکن ان کی سیاسی وراثت نہیں ملی ہے۔ اس معاملے میں نواب صاحب نے پہلے ہی بالاچ کے لیے اعلان کردیا تھا، اور ان کے سوا کوئی بھی وارث نہیں ہے۔‘‘
کراچی یونیورسٹی میں پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں ’’چنگیز کی مری قبیلے کے سربراہ کی حیثیت سے نامزدگی قبائلی اقدار کے تحت جائز ہے، لیکن ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ اس خاندان میں کسی تلخی کا سبب تو نہیں بن جائے گا۔‘‘
ذیلی قبیلے بجارانی کے سربراہ میر ہزار خان بجارانی نے کوئٹہ میں دستار بندی کی تقریب میں شرکت کی تھی، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ چنگیز اپنے والد کے قانونی وارث تھے۔ ’’انہیں متفقہ طور پر مری قبائل کا سردار بنایا گیا تھا۔‘‘
تاہم ناقدین اور قریبی سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ خیر بخش مری نے کئی دہائیوں پہلے ہی چنگیز سے خود کو دور کرلیا تھا، اور 1990ء میں جب انہوں نے مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کی، انتخابات میں حصہ لیا، بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست جیتی اور صوبائی وزیر برائے کمیونیکیشن اینڈ ورکس بن گئے تو اس کے بعد سے وہ اس دائرے سے باہر نکل گئے تھے۔
گزشتہ سال کے انتخابات میں بھی انہوں نے اسی نشست سے دوبارہ کامیابی حاصل کی اور اب وہ پانی و آبپاشی کے صوبائی وزیر ہیں۔
جب خیر بخش مری کو ہسپتال منتقل کیا گیا تو وہ اس وقت کوما میں چلے گئے تھے، اور انہیں اپنے اس بیٹے کی موجودگی کا علم نہیں تھا جس کا انہوں نے اپنے گھر میں داخلہ بند کردیا تھا۔
لیکن اس وقت چنگیز ہی تھے، لوگوں نے جن کے ساتھ ان کے والد کے انتقال کی تعزیت کی تھی۔
ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ ’’ایک واحد قبیلے کی کمانڈ میں تبدیلی سے بلوچ عسکریت پسندی پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا، جو کم از کم چھ جنگجو گروپس کی جانب سے جاری ہے۔‘‘