بجٹ: آئی ایم ایف کے پس منظر میں
آیئے اس مضمون کو اس خوش فہمی کے ساتھ شروع کریں کہ بجٹ میں بہت سے اچھے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں- اور ان میں سب سے نمایاں قدم یہ کوشش ہے کہ معیشت کو دستاویزی دائرے میں لایا جائے --- اور ضمنی طور پر یہ کہ اس مہم کو ختم کردیا گیا ہے جو دستاویزات جمع نہ کرانے والوں کے خلاف چلائی گئی تھی اور جس کی بڑی تشہیر ہوئی تھی- جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس مضمون میں صرف انہیں نکات کو اٹھایا گیا ہے جہاں نظریات میں اختلاف ہے-
میں اس بات کا زبردست حامی ہوں کہ ٹیکس کے ذریعے آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے 'ان ڈائرکٹ طریقہ' استعمال کیا جائے (میرا ماضی کا تجربہ یہی بتاتا ہے)- تاہم، اس میں دو سے تین سال کا عرصہ لگ سکتا ہے-
اس دوران حکومت کو اس بات کی کوشش کرنا چاہیئے کہ وہ ڈیٹا ویئر ہاؤسنگ کو ترقی دینے، تجزیہ کرنے اور اعداد و شمار کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرے تاکہ اس آمدنی کی نشاندہی ہوسکے جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہے- اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس پر غیر ضروری انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی-
اس مقصد کے لیئے ایک ایسا ڈھانچہ تیار کرنا ہوگا جو مربوط اور اندرونی طور پر مستحکم ہو جس میں حکمت عملی اور اہداف کا تعین کیا جائے (مثلاً، آمدنی پیدا کرنا، بجلی کی چوری کی روک تھام، اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے اراکین کی تعداد میں کمی وغیرہ وغیرہ)- اگرچہ کہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن بجٹ میں یہ ساری باتیں نظر نہیں آتیں-
تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بجٹ میں آمدنی اور مصارف کے جو تخمینے پیش کیئے جاتے ہیں اس میں آمدنی کے اعداد و شمار کو بڑھا کر اور مصارف کو گھٹا کر دکھایا جاتا ہے اور یہ حقیقت سے اتنے دور ہوتے ہیں کہ بجٹ کو سنجیدگی سے قبول کرنا مشکل ہوجاتا ہے-
بجٹ پیش کرچکنے کے بعد نظر ثانی کے ذریعے ٹیکسوں سے حاصل ہونیوالی آمدنی کے تخمینے میں کمی کردی جاتی ہے (خاص طور پر اس لئے کہ جب شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے) اور سال کے دوران مصارف کی ادائیگی کے لئے ضمنی مطالبے پیش کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بجٹ کے تخمینے ایک مذاق بن جاتے ہیں-
بجٹ کی تیاری کا المیہ یہ ہے کہ ساری توجہ بجٹ خسارہ پر مرکوز ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض ٹیکس تجاویز کے نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے-
مثال کے طور پر حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجلی کی پیداوار پر ایک روپیہ صرف کرکے جو پیداوار ہوتی ہے اسے فروخت کرکے نو روپیے کمائے جاسکتے ہیں- اگر یہ سچ ہے تو پھر بجلی کے بلوں پر 5 فی صد جی ایس ٹی لگانے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر ہمیں ان اعداد و شمار کی سچائی پر اتنا ہی یقین ہے تو اس میں کوئی منطق نظر نہیں آتی- مزید یہ کہ اسلام آباد خردہ فروشوں پر کس طرح جی ایس ٹی لگا سکتا ہے جبکہ یہ سروس انڈسٹری کے دائرے میں آتا ہے جو صوبوں کے اختیار میں ہے؟
مذکورہ بالا اقدامات کے نتیجے میں، نئی غیرملکی سرمایہ کاری پر عائد انکم ٹیکس کی کہیں زیادہ کم شرح وغیرہ کی وجہ سے ٹیکس کا نظام غیر مساوی ہے کیونکہ ایک ہی طرح کی آمدنی پر یا مختلف ذرائع سے حاصل ہونیوالی آمدنی پر مختلف شرح سے ٹیکس لیا جارہا ہے-
اس کے علاوہ، جیسے جیسے ٹیکس کی تفصیلات سامنے آئینگی یہ توقع کی جانی چاہیئے کہ طاقتور عناصر بعض اقدامات کے خلاف دباؤ ڈالینگے اور جیسا کہ روایت ہے ان کو یا تو ختم کروانے میں کامیاب ہوجائینگے یا پھر ان کو بڑی حد تک غیر موثر کر دینگے-
دوسری طرف، ابھی بجٹ کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوتی کہ اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی اضافی مصارف کو منظور کرنے کا کام شروع کردیگی- مثلاً، گزشتہ سال 83 بلین روپیہ کے اضافی مصارف ہوئے تھے- اس میں، بڑے بڑے طمطراق والے پروجیکٹوں کے مصارف شامل کرلیجیئے (ہائی ویز اور ریلوے ٹریکس) اور کسی کو اس خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیئے کہ مصارف کی ترجیحات میں تبدیلی واقع ہورہی ہے-
بجٹ کی تیاری کا المیہ یہ ہے کہ ساری توجہ خسارہ پر مرکوز ہے-اعداد و شمار کی تکنیک کو اس طرح استعمال کیا جارہا ہے کہ سال رواں کا خسارہ کم کرکے دکھایا جائے اور وہ اس طرح کہ گندم، فرٹیلائزر، چینی اور بجلی نیز اسٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلویز کی سبسیڈیز کے بل کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا جارہا ہے-
اور اگلے برس کے خسارے کو اس طرح ظاہر کرنے کا کیا فائدہ کہ صوبوں سے کہا جائے کہ وہ 289 بلین روپے کی بچت کریں (اور وہ بھی تنخواہوں اور پنشن میں ہونیوالے 125 بلین روپیوں کے اضافے کے بعد جس کا بجٹ میں اعلان کیا گیا-) تاکہ یہ رقم اسلام آباد صرف کرسکے- صوبے یہ رقم جبھی فراہم کرسکتے ہیں جب وہ تعلیم، صحت اور پانی کے مصارف میں کمی کریں-
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (عالمی سیاسی وجوہات اور ماضی کے قرضوں کی وصولیابی کے پیش نظر) اعداد و شمار کے اس الٹ پھیر میں سرگرم حصہ نہ بھی لے رہا ہو تو خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اور ابھی تک تو ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ ہمارے سپورٹ سسٹم کو ختم کرنے کے موڈ میں نہیں ہے اور ہمیں مطلوبہ رقم فراہم کررہا ہے تاکہ ہم ماضی کے قرضے واپس کرسکیں اور ہمیں وہ سرٹیفیکٹ دے رہا ہے تاکہ دوسرے ہمیں قرض دیں- لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا ہے؟
آئی ایم ایف نے بجٹ خسارے کا جو ٹارگٹ دیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کھاتوں کی بیلینسنگ میں لگ گئے ہیں اور اپنی معیشت کا رخ بدلنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں جو انتہائی ضروری ہے تاکہ تیز رفتار ترقی ہوسکے- اگرچہ مالیاتی صحت ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ اہم اس صحت کا معیار ہے- کیونکہ وسائل کو بھاری قرضوں کی واپسی کے لئے اور ریاستی امور کو نمٹانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے نہ کہ اثاثوں کی تخلیق اور انھیں برقرار رکھنے میں-
اگر ہم ماضی کے خسارے کے اعداد و شمار کو تسلیم بھی کرلیں جس کا اعلان حکومت نے کیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ترقیاتی مصارف میں بھاری کمی کی گئی تھی جس کے نتیجے میں یہ مصارف اس سال کے پہلے نو مہینوں میں جی ڈی پی کے کم و بیش ایک فی صد تھے، جو اگر ہماری ساری تاریخ میں نہیں تو بھی پچھلی تین دہائیوں میں سب سے کم ہیں-
میکرو اکنامک استحکام بجائے خود کوئی مقصد نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ترقی کو بحال کرنے کا واحد ذریعہ ہے اور نہ ہی اس سے غربت کو ختم کیا جاسکتا ہے- نا تو نظریاتی علم، نا ہی تجرباتی شواہد حتمی طور پر یہ بتاتے ہیں کہ میکرواکنامک کا استحکام لازمی طور پر معاشی ترقی کا باعث ہوسکتا ہے-
بہرحال، پاکستان کے بجٹ کے خسارے کی وجہ امداد پر اس کا ناگزیر انحصار ہے- امداد کے نتیجے میں حکومت کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ محض بیرونی امداد کو استعمال کرنے کے لئے زیادہ مصارف کرے- اسی لئے، خسارے کی حد کا انحصار بجٹ بنانے کی مہارت پر اتنا نہیں بلکہ اس رقم کے حصول پر ہے جو ڈونرز دیتے ہیں- حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس کے طریق عمل میں بہتری واقع ہوتی ہے اور اس کا استعمال موثر ہوجاتا ہے تو خسارہ بڑھ جاتا ہے-
بیرونی ڈونرز کی فیاضی (نیز اوورسیز پاکستانیوں سے حاصل ہونے والے زر مبادلہ) کی وجہ سے معنی خیز اور پائدار اسٹرکچرل اصلاحات کا عمل رک گیا ہے- ہمیں اگلے برس بھی ان پر بھاری انحصار کرنا ہوگا- برسہا برس سے ہماری بدتر معاشی حکمت عملی نے ہمیں اس حالت میں لا کھڑا کیا ہے- ان پر قابو پانے کے لئے وقت اور کوشش درکار ہے- افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا طرز حکمرانی یہ ہوگیا ہے کہ ہم مستقل بین الاقوامی برادری کی طرف دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ ہمیں مدد دیں تاکہ ہم اپنے بل ادا کرسکیں، گویا کہ ہمیں لائسنس مل گیا ہے کہ ہم اپنے امور کو نمٹانے میں اسی طرح سے بد انتظامی سے کام لیتے رہیں-
ترجمہ: سیدہ صالحہ