پاکستان اچھا، پر وہاں رہنا اچھا نہیں ہے
پچلھے دنوں ایک ٹریننگ کورس کے سلسلے میں نیدر لینڈز جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں ایک عجیب و غریب قوم سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا.
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ اب میں ڈچ قوم کی تعریفوں میں قصیدے شروع کرنے والا ہوں تو آپ بالکل غلط سمجھ رہے ہیں. نیدر لینڈز یا عرف عام ہالینڈ میں ڈچ نسل کے علاوہ ایک اور قوم بھی بستی ہے اور اس قوم کا نام ہے 'اوورسیز پاکستانی قوم'.
میرے کوئی دو ماہ کے قیام میں وہاں بہت سے ایسے پاکستانیوں سے ملا قات کا شرف حاصل ہوا جو کئی دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنھوں نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا.
ان تمام ملاقاتوں میں عجیب و غریب انکشافات کی بو چھا ڑ ہوئ؛
سب سے پہلا انکشاف یہ ہوا کہ ان سے زیادہ پاکستان سے نہ تو کوئی محبت کرتا ہے نہ ہی ان سے زیادہ کسی پاکستانی دل میں پاکستان کا درد ہے. یہ سب پاکستان کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے بارے میں سننا بھی چاہتے ہیں پاکستان کے بارے میں تمام خبریں بھی رکھتے ہیں پر کوئی بھی پاکستان آنا نہیں چاہتا سب کہتے ہیں پاکستان اچھا ہے، بلکہ بہت اچھا ہے پر وہاں رہنا اچھا نہیں ہے.
ایک صاحب نے جب مجھے کھانے پر بلایا تو فرماتے ہیں ارے صاحب، یہ کوفتے کھائیے اسپیشل پاکستانی مصالحے سے بنے ہیں بھائی! ہم تو اپنے سارے مصالحے پاکستان سے ہی منگواتے ہیں، انڈیا کے مصالحے بھی کوئی مصالحے ہیں. میں نے کہا جی بہتر فرمایا آپ نے.
پھر کہنے لگے ارے بھایئ جان آپ نے یہ بھنڈی تو چکھی ہی نہیں یہ بھی پاکستانی ہے یقین کریں جو بھنڈی افریقہ سے آتی ہے بڑی ہی بد ذائقہ ہوتی ہے پر میرے گھر میں تو بھنڈی پاکستان ہی کی آتی ہے، تھوڑی مہنگی ہوتی ہے پر میں خرید لیتا ہوں. ابھی جب آپ پاکستان واپس جایئں گے تو آموں کا موسم شروع ہو جائے گا، کیا آم ہوتے ہیں! بڑی مشکل ہوتی ہے صاحب یہاں پاکستانی آم ڈھونڈنے میں، کیا کریں... میں نے کہا، جی بالکل آم تو واقعی پاکستان کے ہی اچھے ہوتے ہیں.
کچھ دیر بعد مزید بولے حضور مجھے لگتا ہے پاکستانی صحافی کچھ کھاتے پیتے نہیں، آپ کچھ لے ہی نہی رہے ... تو میں فوری طور پر بولا اجی نہی ایسی کوئی بات نہی، پاکستان میں صحافی کافی کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور کھانا بھی لاجواب ہے! آپ نے پردیس میں اپنے دیس کی یاد دلا دی، ویسے آپکو بھی یاد تو آ تی ہوگی پاکستان کی، میں نے پوچھا تو جناب کہنے لگے کیا یاد کروا دیا آپ نے ہم تو پاکستان کو دل میں لیے گھومتے ہیں آپ دیکھیں تو سہی میرے گھر میں جو ٹی وی کیبل آتا ہے اس میں سب پاکستانی چینلز ہیں، پل پل کی خبر رکھتے ہیں ہم پاکستان کے متعلق! انٹرنیٹ پر سارے پاکستانی اخبار پڑھتا ہوں جی.
اچھا یہ بتائیے لاہور کیسا ہے؟ ہم نے تو بس ٹی وی پر ہی دیکھا ہے، کبھی اتفاق ہی نہیں ہوا، انیس سال کا تھا جب یہاں آیا اور پھر ایسا آیا کہ یہیں کا ہو کر رہ گیا سنا ہے اب کافی صاف ستھرا ہو گیا ہے لاہور.... میں نے کہا جی بالکل درست فرمایا آپ نے.. میں اب تک ان صاحب کی گفتگو سے کافی حد تک متاثر ہو چکا تھا
اتنی دیر میں انکے دونوں بچے ڈرائنگ روم میں آ گئے، میں نے بچوں سے اردو میں بات کرنی چاہی تو معلوم ہوا کہ انھیں اردو نہیں آتی، پوچھنے پر پتہ چلا کہ بچے صرف ڈچ زبان ہی بولتے ہیں کیوں کہ وہیں پلے بڑھے ہیں اور پاکستان کبھی نہیں گئے.
مارے اشتیاق کے میں نے پوچھ ہی لیا اظہر صاحب آپ آخری دفعہ پاکستان کب گئے تھے؟
جواب ملا، "یہی کوئی تیرہ سال پہلے".
میں کافی حیران ہوا اور اگلا سوال داغ دیا، تو اب کب جانے کا ارادہ ہے؟ اگر لاہور آنا ہو تو ملاقات کا شرف ضرور بخشیے گا، تو میرے محب وطن مخلص دوست فرمانے لگے؛
"اجی اب پاکستان میں کیا رکھا ہے، بجلی وہاں نہی آتی، پانی وہاں آلودہ ہے، گھر سے باہر نکلو تو لوٹ لیں گے اور اگر لوٹنے کے بعد زندہ چھوڑ دیا تو معلوم نہیں کب کسی مارکیٹ میں بم دھماکے میں مارے جائیں گے.. آجکل تو سنا ہے ڈینگی کی وبا بھی پھیلی ہے نہ بابا نہ ہم تو دور ہی بھلے"
میں نے کہا؛ "پر اظہر صاحب وہاں بھی تو بیس کروڑ انسان بستے ہیں، اتنے بھی برے حالات نہیں ہیں جتنے آپ سمجھ رہے ہیں، میری اس بات کے جواب میں کہنے لگے؛
"عدیل صاحب حالات برے ہی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستانیوں نے ان حالات کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لیا ہے. سینکڑوں بچے تھر میں حکومتی غفلت سے مر جاتے ہیں، بات ہی کوئی نہیں؛ کوئی مذہب کے نام پر کٹ رہا ہے، کوئی صوبائیت کے نام پر مر رہا ہے کوئی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ رہا ہے اور کچھ بد نصیب ایسے بھی ہیں جن کی آنکھوں میں مرنے کے بعد ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہوتا کہ کیوں؟؟؟ آپکے نزدیک حالات ابھی برے نہیں. آپ خود بتائیں کیا آپ کے بچے اس طرح گلی میں کھیل سکتے ہیں؟ جسے ابھی ابھی آپ نے دیکھا میرے بچے کھیل رہے تھے، ارے وہاں گلی میں کھیلنا تو دور کی بات وہاں تو بچوں سے ایک صحت مند زندگی گزارنے کا حق بھی چین لیا ہے گیا ہے، دو بوند پولیو ویکسین پلانے کی خاطر کتنے ورکرز کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں.... چلیں مانا کہ میں تو کم پڑھا لکھا آدمی تھا، یہاں آ گیا روزی روٹی کمانے، پر اب تو وہاں نوجوان نسل ڈاکٹر اور انجنیئر بنتی ہی اسی لئے ہے کہ امریکا یا کینیڈا امیگریشن کروالیں اور جو الّا ماشا الله کم پڑھے لکھے ہیں وہ اس تلاش میں ہیں کہ کوئی باہر کی لڑکی مل جائے جو انھیں بھی پاکستان سے با ہر لے جائے یہ تو حال ہے وہاں!"
میں نے کہا؛ "پر جناب یہ تو ہر ترقی پذیر ملک کی کہانی ہے اس سب کا یہ مطلب تو نہیں کہ سب کچھ برا ہے، بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں"، ابھی میں مزید کچھ بولنے ہی والا تھا کہ انہوں نے مجھے ٹوک دیا؛
کہنے لگے! "سر پاکستان سے آنے والے اکثر مہمان انڈر پاسز اور بلند و بالا پلوں کی باتیں کرتے ہیں، بہت اچھی بات ہے مادی طور پر تو آپ اکیسویں صدی کی طرف بڑھ رہے ہیں پر علمی اور فکری طور پر تو آپ کے یہاں زمانہ جاہلیت چل رہا ہے، دیکھیے ہم پاکستان سے دورضرور ہیں پر پاکستان کا درد ہمارے دل میں بھی ہے...."
میں اب تک ان حضرت کی باتوں سے کافی اکتا چکا تھا باتیں ان کی سو فیصد درست تھیں لیکن پتا نہی کیوں ان صاحب کی دوغلی پالیسی سے مجھے اختلاف سا ہونے لگا بہرحال میں نے کہا؛
"اظہر صاحب اگر آپ امریکی تاریخ کا مطالعہ کریں تو سول وار کے تناظر میں آپ کو خون ہی خون نظر آے گا چالیس کی دہائی میں امریکہ نے بھی نسلی تعصب کی جنگ لڑی ہے اور وہی جنگ آج ہم بھی لڑ رہے ہیں.
پاکستان میں بھی مارٹن لوتھر کنگ جیسے بہت لوگ ہیں جو خواب دیکھتے ہیں کہ کل کا پاکستان اچھا ہوگا، روشن ہوگا، پرامن ہوگا، جہاں بچے بلا خوف و خطر گھروں سے باہر نکلیں گے، جہاں بھوک اور قحط سے کوئی نہیں مرے گا. یہ سب لوگ بھی پاکستان سے آپ ہی جتنا پیار کرتے ہیں، فرق بس اتنا ہے کہ آپ ایمسٹرڈیم کے ایک پوش علاقے میں بیٹھ کر یہ سب سوچتے ہیں اور وہ سب پاکستان کی سڑکوں پر آنے والی نسل کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس امید کا حصہ ہیں جو آپ جیسے بہت سے پاکستانی کھو چکے ہیں ...............
تبصرے (3) بند ہیں