• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

رواں مالی سال کا اقتصادی سروے جاری

شائع June 2, 2014
۔—اے ایف پی فوٹو۔
۔—اے ایف پی فوٹو۔
۔—اے ایف پی فوٹو۔
۔—اے ایف پی فوٹو۔

اسلام آباد: مالی سال دو ہزار تیرہ چودہ کا اقتصادی سروے جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں اقتصادی شرح نمو چھ سال بعد پہلی مرتبہ سب سے زیادہ 4.14 فیصد تک پہنچ گئی۔

رواں مالی سال کے دوران مجموعی صنعتی ترقی، ملکی برآمدات، زرمبادلہ کے ذخائر، ترسیلات زر، سرمایہ کاری، قومی محصولات اور روپے کی قدر میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پیر کو ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں اقتصادی جائزہ دو ہزار تیرہ چودہ کا اجراء کیا۔

اقتصادی جائزہ کے اہم نکات پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجہ میں ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے۔

گزشتہ چھ سال کے دوران پہلی دفعہ اقتصادی شرح نمو 4 فیصد سے بڑھی ہے اور جون 2017ء تک اس کو 7 فیصد سے بڑھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہر سال ایک فیصد کی شرح ترقی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

گزشتہ مالی سال میں صنعتوں کی شرح ترقی 1.37 فیصد تھی جو رواں سال بڑھ کر 5.84 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے کی صنعتوں کی پیداوار میں مالی سال 2013-14ء کے ابتدائی نو ماہ کے دوران 4.23 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ سال اسی عرصہ میں یہ اضافہ 3.5 فیصد تھا، جولائی تا مارچ 2013-14ء میں کھاد کی پیداوار میں 21.64 فیصد، چمڑے کی مصنوعات 12.96 فیصد، ربڑ کی مصنوعات 9.48 فیصد، پٹرولیم 7.48 فیصد، آئرن اور اسٹیل 3.38 فیصد، الیکٹرانک 2.91 فیصد، ٹیکسٹائل 1.44 فیصد اور غیر دھاتی معدنی پیداوار میں 0.15 فیصد، شعبہ معدنیات میں 4.4 فیصد شرح نمو رہی۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی شعبہ کی شرح ترقی میں اضافہ کے بنیادی اسباب میں صنعتی شعبہ کو گیس اور بجلی کی فراہمی میں اضافہ کیلئے اقدامات ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے توانائی کے شعبہ کے گردشی قرضے ختم کرنے کیلئے اقدامات کئے جس سے پیداوار میں بہتری آئی۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں بجلی اور گیس کی ترسیل منفی 16.33 فیصد تھی جو بہتر اقدامات کے نتیجہ میں رواں سال 3.72 فیصد تک مثبت ہوئی ہے۔

عمیراتی شعبے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس سے 40 سے زائد چھوٹی بڑی صنعتیں وابستہ ہیں جس کی کارکردگی گزشتہ سال منفی 1.685 فیصد تھی جو رواں سال بڑھ کر 11.31 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خدمات کے شعبہ کی ترقی میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے جس کا سبب حکومتی اخراجات میں کمی کے فیصلے کے اثرات ہیں جبکہ خدمات کے شعبہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے کئے گئے اصلاحات کے اثرات آئندہ ایک دو سال میں ظاہر ہوں گے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ سال خدمات کے شعبہ کی شرح ترقی 4.85 فیصد تھی جو رواں سال 4.29 فیصد رہی ہے۔ ہول سیل اور ریٹیل کے کاروبار میں گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں بہتری ہوئی ہے جس کی شرح نمو 3.38 فیصد سے بڑھ کر 5.18 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ٹرانسپورٹ، سٹوریج اور کمیونیکیشن کے شعبوں میں 0.10 فیصد کی ترقی ہوئی ہے جو 2.88 فیصد بڑھ کر 2.98 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ کپاس اور دالوں کی پیداوار میں ہونے والی کمی کی وجہ سے زرعی شعبہ کی مجموعی کارکردگی میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم گزشتہ سال کے مقابلہ میں رواں سال کے دوران بڑی فصلوں کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ سال زرعی شعبہ کی شرح نمو 2.88 فیصد تھی جو رواں سال 2.12 فیصد رہی ہے جبکہ بڑی فصلوں کی شرح نمو 1.19 فیصد سے بڑھ کر 3.4 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ گندم، چاول اور گنے کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

زرعی شعبہ کی پیداوار بڑھانے اور کاشتکاروں کو سستے زرعی مداخلات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کھاد پر خطیر رقم کی سبسڈی دی ہے، گزشتہ سال 3 لاکھ 19 ہزار ٹن کھاد دستیاب تھی جو رواں سال 3 لاکھ 72 ہزار ٹن تک پہنچی ہے، کھاد کی قیمت بھی 1925 روپے سے کم کر کے 1750 روپے تک کی گئی ہے۔

آبپاشی کیلئے پانی کی دستیابی میں 9.4 فیصد کی بہتری ریکارڈ کی گئی ہے، گزشتہ سال میں 89.6 ملین ایکڑ فٹ پانی زرعی مقاصد کیلئے دستیاب تھا جو رواں سال 98 ملین ایکڑ تک بڑھ گیا ہے۔

جولائی تا اپریل 2013-14ء میں ملکی برآمدات 4.24 فیصد اضافہ کے ساتھ 20997 ملین ڈالر رہیں جو گزشتہ سال اسی مدت میں 20143 ملین ڈالر تھیں۔ مجموعی ملکی درآمدات میں 1.2 فیصد کے اضافہ کے ساتھ 37105 ملین ڈالر رہیں جو گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 36665 ملین ڈالر تھیں۔

وزیر خزانہ نے درآمدات میں اضافہ کے حوالے سے کہا کہ اس میں پلانٹ اور مشینری کی درآمدات بھی شامل ہیں جن سے توانائی اور صنعتی شعبہ کی کارکردگی آنے والے دنوں میں بہتر ہوگی۔

جولائی تا اپریل 2013-14ء میں پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تجارتی خسارہ میں 2.8 فیصد کا اضافہ ہوا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گزشتہ قرضوں کی ادائیگی کی اقساط کی وجہ سے اس میں ایک ارب ڈالر زائد رہا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ روپے کی قدر میں ہونے والے اضافہ سے قرضوں کی ادائیگیوں کی مد میں 42 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر میں گزشتہ سال کے مقابلہ میں رواں سال کے دوران 11.5 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، ترسیلات زر دس ماہ کے دوران 12 ارب 90 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے دوران 11 ارب 60 کروڑ ڈالر تھیں۔

غیر ملکی سرمایہ کاری میں ایک ارب ڈالر سے زائد اضافہ ہوا ہے جو 1.277 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2.979 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ میں یورو بانڈ کی دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں جاری مالی سال کے دوران تیل و گیس، فنانشل سیکٹر، توانائی کے شعبے اور مواصلات کے شعبہ میں نمایاں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں چھ ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوا ہے اور سٹیٹ بینک کے پاس آٹھ ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر موجود ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ سال 21 مئی کو 11 ارب 40 کروڑ ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر تھے جو رواں سال 13 ارب 63 کروڑ ڈالر تک بڑھ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والے اضافہ کا سب سے زیادہ اثر سٹیٹ بینک کے ذخائر پر ہوا ہے جو 8.8 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ روپے کی قدر میں ہونے والی بہتری کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ دنیا بھر کے اور ملکی معاشی پنڈت ڈالر کی قیمت کو 120 تا 130 روپے تک بڑھا چکے تھے جبکہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال کے دوران ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر میں 89 پیسے کی بہتری ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال 21 مئی کو ڈالر 99.66 روپے کا تھا جو رواں سال اسی تاریخ کو 98.77 روپے کا تھا۔ ملک میں کی گئی سرمایہ کاری کا حجم 3276 ارب روپے سے بڑھ کر 3554 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ کے دوران کل سرکاری قرضہ جات 199.6 ارب روپے رہے جو گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں 992.9 ارب روپے تھے۔ اسٹیٹ بینک کے قرضے 416.8 ارب روپے تھے جبکہ اس سال 10.5 ارب روپے ادا کئے گئے ہیں۔

ان کے مطابق نجی بینکوں کا قرضہ جو گزشتہ سال 92.5 ارب روپے تھا اس سال 296.4 ارب روپے ہو گیا، اس طرح نجی شعبہ قرضوں کی شرح نمو 220 فیصد ریکارڈ کی گئی جو ایک مثبت علامت ہے۔

آخر جون 2013ء کے مقابلے میں 138 ارب روپے کی کمی کے ساتھ آخر مارچ 2014ء تک 4711 ارب روپے ہوگئے ہیں۔ جولائی تا مارچ 2013-14ء کے دوران 1561 ارب روپے کے سالانہ ہدف میں سے 1155 ارب روپے کے سرکاری قرضوں کی ادائیگی کی گئی۔ اس طرح قرضہ جات کی ادائیگی میں کل وصولیوں کا 47 فیصد صرف ہوا۔

قرضوں کی ادائیگی سے سالانہ 42 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی کوششیں مالیاتی خسارہ میں کمی کی صورت میں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

جولائی تا مارچ 2013-14ء کے دوران مالیاتی خسارہ 3.2 فیصد رہا جبکہ گزشتہ برس یہ خسارہ خام ملکی پیداوار کا 4.7 فیصد تھا۔ سال 2013-14ء کے لئے اخراجات کا کل تخمینہ 5297.2 ارب روپے تھا جس کا 74.8 فیصد یعنی 3963 ارب روپے جاری اخراجات اور 25.2 فیصد یعنی 1334.3 ارب ترقیاتی اخراجات کے لئے مختص کئے گئے۔

جولائی تا مارچ کل اخراجات کی شرح نمو 3.7 فیصد رہی جو گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں 20.4 فیصد تھی۔ جولائی تا مارچ 2013-14ء میں کل وصولیاں 16.6 فیصد اضافہ کے ساتھ 2477.4 ارب روپے رہی جو پچھلے سال کی اسی مدت میں 2124.9 ارب روپے تھی۔ محصولات کی وصولیاں 16.9 فیصد اضافہ کے ساتھ 1786.2 ارب روپے رہی جبکہ گزشتہ برس یہ وصولیاں 1527.8 ارب روپے تھیں۔

محصولات کی وصولیوں میں بنیادی وجہ وفاقی ٹیکس محصولات میں 16.3 فیصد کا اضافہ تھا۔ رواں سال کے پہلے 11 ماہ کے دوران ایف بی آر کی وصولیاں 1955 ارب روپے رہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں 1679 ارب روپے تھیں۔ اس طرح ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں 16.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

غیر ٹیکس آمدنی میں جولائی تا مارچ 2013-14ء میں 15.8 فیصد اضافہ کے ساتھ 691.2 ارب روپے رہی جبکہ گزشتہ برس یہ 597 ارب روپے تھی۔ صوبائی ٹیکس محاصل میں 24.3 فیصد کا اضافہ اور صوبوں کو وفاق کی طرف سے 13.9 فیصد زیادہ منتقلی کی وجہ سے صوبائی سرپلس جولائی تا مارچ 2013-14ء کے دوران 257.9 ارب روپے تک بڑھ گیا ہے۔ جولائی تا مارچ 2013-14ء میں سبسڈی کی مد میں 210.8 ارب روپے ادا کئے گئے جبکہ 2012-13ء کی اسی مدت میں یہ رعایتیں 270 ارب روپے تھیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت عوام کے معیار زندگی اور وسائل آمدنی کے فروغ کیلئے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کر رہی ہے جس سے فی کس آمدنی میں 3.5 فیصد کی شرح نمو ریکارڈ کی گئی ہے۔ گزشتہ سال فی کس آمدن 1339 ڈالر تھی جو رواں سال 1386 ڈالر تک بڑھ کی ہے۔

سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستانی سٹاک مارکیٹ کی شرح نمو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ سب سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں رواں مالی سال کے دوران ملکی سٹاک مارکیٹ نے ڈالر اور روپے کی قدر میں بالترتیب 37 اور 38 فیصد کی شرح سے ترقی حاصل کی ہے۔ رواں سال کمپنیوں کی رجسٹریشن کی شرح 13.79 فیصد بڑھی ہے گزشتہ سال کے پہلے دس ماہ کے دوران 3212 نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن کی گئی تھی جبکہ رواں سالی اسی عرصہ کے دوران 3655 کمپنیوں کی رجسٹریشن کی گئی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت مالیاتی خسارے کی کمی کیلئے جامع حکمت عملی کے ذریعے ٹھوس اقدامات کر رہی ہے، جون 2016ء تک مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک لایا جائے گا۔

حکومت پاکستان اس وقت خام قومی پیداوار کا 2 فیصد تعلیم پر خرچ کر رہی ہے جسے بتدریج 4 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ رواں سال صحت کے شعبہ کے لئے کل اخراجات 102.3 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں سے 27.8 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لئے اور 74.5 ارب روپے جاری منصوبوں کے لئے ہیں جو خام ملکی پیداوار کا 0.40 فیصد بنتے ہیں۔

جولائی تا مارچ 2013-14ء میں قومی بچت کی اسکیموں میں 161.37 ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ پاکستان پوسٹ نے 806.8 ملین روپے کمیشن کے طور پر حاصل کئے۔ ذرائع مواصلات کی پہنچ میں اضافہ ہوا ہے اس شعبہ میں 345.5 ارب روپے کی آمدنی ہوئی، اب 78 فیصد آبادی کو مواصلات کی سہولت حاصل ہے۔

تھری جی اور فور جی لائسنسوں کی نیلامی سے حکومت کو 1112.8 ملین ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ ٹیلی کام کے شعبہ میں رواں سال 345.5 ارب روپے کی آمدنی ہوئی جو گزشتہ سال 323 ارب روپے تھی۔ موبائل فون کی سہولت 2014ء میں 136.5 ملین لوگوں تک پہنچ چکی ہے۔

موجودہ حکومت نے بجلی کے بحران کے خاتمے کے لئے 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا ہے جس سے اس کی پیداوار میں 1752 میگاواٹ کا اضافہ ہوا۔ سال 2013-14ء میں توانائی کے شعبہ میں 9.4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔

جولائی تا مارچ 2013-14ء میں مقامی خام تیل کی پیداوار 23 ملین بیرل یومیہ رہی جبکہ تیل کی درآمد تقریباً 44.9 ملین بیرل یومیہ رہی۔ اس عرصہ میں گیس کی کل پیداوار 1124.8 بلین کیوبک فٹ رہی جو گزشتہ سال 1139.2 بلین کیوبک فٹ تھی۔

اس طرح اس کی شرح نمو منفی 1.3 فیصد رہی۔ جولائی تا اپریل 2013-14ء میں بجلی کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلہ میں 11 فیصد اضافہ ہوا۔ حکومت غربت کے خاتمے کے منصوبوں پر خام ملکی پیداوار کا 4.5 فیصد مختص کرنے میں سنجیدہ ہے، درمیانے درجے کے اخراجات کے منصوبہ کے لئے تخفیف غربت پروگرام II میں غریبوں کی بھلائی کے 17 شعبوں کو ترجیحی حیثیت دی ہے۔

غریبوں کی بھلائی کے منصوبوں پر سال 2013-14ء میں 588.105 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں، اس عرصہ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 75 ارب روپے مختص کئے گئے اور 5.25 ملین خاندانوں میں 48.18 ارب روپے تقسیم کئے جا چکے ہیں جبکہ پچھلے سال 4.8 ملین افراد میں 42.8 ارب روپے تقسیم کئے گئے تھے۔

پاکستان تخفیف غربت فنڈ کے تحت جولائی سے دسمبر 2013-14ء میں 8.42 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں رواں مالی سال کے دوران فی کس آمدنی میں 3.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یورپی یونین کے ممالک کی طرف سے جی ایس پی پلس کی سہولت، توانائی کی بہتری اور سازگار کاروباری ماحول کے نتیجہ میں آئندہ سالوں کے دوران ملکی معیشت میں مزید ترقی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ آج سے ایک سال قبل بیرونی سرمایہ کار یہاں پر سرمایہ کاری سے ہچکچاتے تھے لیکن اب دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں جو حکومت کی بہترین اقتصادی کارکردگی کا ثبوت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ایف بی آر اہلکاروں کی جانب سے ٹیکس نہ دینے کے معاملہ کا انہوں نے نوٹس لیا ہے اور ان اہلکاروں کو 10 جون تک جرمانہ کے ساتھ گوشوارے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہنے والے اہلکاروں کے اسپیشل الاؤنسز روک دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹیرینز اور عام لوگوں کی ٹیکس ڈائریکٹریاں شائع کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کا پہلا سال فائر فائٹنگ کا تھا، اب صحیح کام ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کے غریب اور محروم طبقات کی مالی اعانت کا آئیڈیا انہوں نے 2008ء میں بطور وزیر خزانہ دیا تھا۔

انکم سپورٹ پروگرام کا حجم پانچ سال میں 40 ارب روپے تھا جو ہم نے ایک سال میں 75 ارب روپے تک بڑھا دیا ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس چھوٹ کو دو گنا نہیں کیا گیا، ٹیکس میں رعایت کے حوالے سے تمام غیر ضروری ایس آر آوز کو بتدریج تین سال میں ختم کریں گے۔

اس عمل کی شروعات نئے مالی سال کے بجٹ سے کی جائے گی۔ اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ملکی دفاعی ضروریات پہلے بھی پوری کی جاتی رہی ہیں اور آئندہ بھی کی جائیں گی۔

وزیراعظم محمد نواز شریف نے ملک کو ناقابل تسخیر بنایا، ہماری حکومت نے ملک کے دفاع کے لئے ہر اقدام کیا، ملکی دفاع کی تمام ضروریات پوری کی جائیں گی۔

اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ نے اقتصادی جائزہ 2013-14ء کی رونمائی کی۔ وفاقی سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، وزارت خزانہ کے مشیر رانا اسد امین اور دیگر متعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024