• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اجتماعی دانش کا جنازہ

شائع May 31, 2014
ہمارا نناوے فیصد پڑھا لکھا طبقہ جس میں استاد، صحافی، وکیل اور جج شامل ہیں انتہا پسندوں کے ترجمان بن چکے ہیں
ہمارا نناوے فیصد پڑھا لکھا طبقہ جس میں استاد، صحافی، وکیل اور جج شامل ہیں انتہا پسندوں کے ترجمان بن چکے ہیں

نواز حکومت کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے مگر انداز حکمرانی جمہوری کی بجائے بدستور بادشاہوں والا ہے جو ترقی کا انوکھا ہی تصور لیے ہوئے ہے۔

ریاست کا انفراسٹرکچر انتہائی پسماندہ ہو چکا ہے مگر اسے درست کرنے کی بجائے چند بڑے شہروں میں ایسے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں جس کا فائدہ چند ہزار لوگوں تک محدود ہوتا ہے جبکہ پچانوے فیصد شہر، قصبے اور دیہات انتہائی پسماندہ ہیں۔

پہلے بادشاہ اپنی تفریح کے لیے قلعے، باغات اور مقبرے بنواتے تھے اب چند ہزار افراد کے لیے میٹرو بس اور میٹرو ٹرین جیسے منصوبے شروع کردیئے ہیں تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ پاکستان کتنا ترقی یافتہ ملک ہے۔

تعلیم، صحت اور امن وامان جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ریلوے کو درست کرنے کے لیے وسائل نہیں مگر لاہور میں چند ہزار لوگوں کے لیے میٹرو ٹرین شروع کرنے کا منصوبہ ہے۔

ریاست کے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا شاید ابھی انہوں نے سیکھا نہیں۔ جس طرح عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے من پسند افراد کو تعینات کیا جارہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ یہی کچھ جب گیلانی یا زرداری کرتے تھے تو میڈیا، عدلیہ اور نواز شریف یک زبان ہو آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے۔ عدلیہ نوٹس لیتی اور اگلے تین ماہ خوب تماشا لگا رہتا۔

جمہوری عمل کے خلاف غیر جمہوری قوتیں سازشیں تو کرتی ہی ہیں خاص کر ایسے ملک میں جہاں جمہوریت ابھی نوزائیدہ ہو۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور سب کے سامنے ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا جب نام نہاد آزاد میڈیا حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دیتا اور آزادی اظہار رائے کی آڑ میں حکومتی ارکان اور وزراء کی پگڑیاں اچھالتا تھا۔ لیکن پی پی پی حکومت کا حوصلہ تھا کہ انہوں نے اُف تک نہ کی اور سخت سے سخت تنقید کو برداشت کیا۔

گو کہ مسلم لیگ نواز کا موقف ظاہراً یہی ہوتا تھا کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے لیکن درپردہ نوازشریف چیف جسٹس اور میڈیا کی پشت پناہی کرتے رہے اور جمہوری حکومت کی راہ میں ہر ممکن روڑے اٹکائے جس میں سب سے اہم ایشو این آر او کی مخالفت تھا۔

نوازشریف جن کی واپسی این آر او کی بدولت ہی ممکن ہوئی تھی، بڑی ڈھٹائی سے این آر او کی مخالفت کرتے رہے اور میمو کیس میں تو حد ہی ہو گئی جب وہ کالا کوٹ پہن کر جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی مدد کے لیے عدالت پہنچ گئے۔

خیال کیا جارہا تھا کہ نواز شریف تیسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے پچھلے ادوار کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میاں صاحب نے جیو ٹی وی اور عدلیہ کے ساتھ مل کر جس طرح کی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا اب اقتدار میں آکر جمہوری انداز سے مقابلہ کرنے کی بجائے انہی ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کردیا۔

جیو اور جنگ کے ذریعے ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز بھونڈے پن کی نشانی ہے۔ نوازشریف ماضی میں بھی اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ کچھ اسی قسم کاکھیل کھیل چکے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا۔ صورت حال کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کی کوشش کرنا اور ریاستی اداروں کو دباؤ میں لانے کی حکمت عملی الٹا گلے پڑ گئی ہے۔

اس محاذ آرائی سے ملک میں انتہا پسندی کی ایک نئی لہر پید ا ہوئی ہے۔ روشن خیال اور اقلیتیں تو پہلے سے ہی انتہا پسندوں کے نشانے پر تھے لیکن اب ان کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو روز اول سے انتہا پسندوں کے قبضے میں ہے جس نے مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو ہمارا ہیرو بنایا۔ مسلم لیگ نواز کا انتہا پسندوں کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کا خمیازہ پوری قوم قتل و غارت کی صورت میں بھگت رہی ہے۔

نوازشریف طالبان کے خلاف کوئی واضح موقف اپنانے میں ناکام رہے ہیں جبکہ طالبان مسلسل پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

پاک فوج بھی کئی سالوں سے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کرتی چلی آرہی ہے مگر ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔ طالبان کے ساتھ ساتھ اندرون ملک انتہا پسند مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے اپنے مخالف یا اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے پر توہین دین کا الزام لگا کر قتل کردیتا ہے۔

اب تو تقریباً ہر روز ہی توہین دین کے مقدمات درج ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انتہا پسندوں کے سامنے ہماری انتظامیہ اور عدالتیں بے بس ہیں۔ جس کا حالیہ مظاہرہ ملتان میں ہوا ہے جب ایک انسانی حقوق کی جدو جہد کرنے والے وکیل راشد رحمان کو بھری عدالت میں مخالف وکیل نے قتل کی دھمکیاں دیں تو جج خاموش رہا۔ ملتان میں راشد رحمان کا قتل اور شیخوپورہ میں حوالات میں ایک احمدی خلیل احمد کا قتل واضح نشانیاں ہیں کہ پانی سر سے اوپر چڑھ چکا ہے۔

وکلاء جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ قانون کے رکھوالے ہیں افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کے بعد قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔ وکلاء کی اکثریت مذہبی انتہا پسندوں کی سب سے بڑی ترجمان بن کر سامنے آئی ہے۔ بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے تشدد پر اکسانے والی قراردادیں منظور کرنے کو ایک شرمناک عمل ہی کہا جا سکتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ نہ سہی کم از کم پاکستان بار کونسل کو ہی اس کا نوٹس لینا چاہیے اور اس پریکٹس کو روکنے کے اقدامات اٹھانے چاہییں۔ ایک عام آدمی کو تو شاید عقل کی کوئی بات سمجھ آجاتی ہو مگر ہمارا نناوے فیصد پڑھا لکھا طبقہ جس میں استاد، صحافی، وکیل اور جج شامل ہیں انتہا پسندوں کے ترجمان بن چکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اجتماعی دانش کا قتل عام ہورہا ہے۔


نوٹ: راشد رحمان کے قتل کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جنید حفیظ کا کیس اب کون لڑے گا؟

کیا قوم کا وہ ہونہار سپوت اور ایک مثالی استاد محض ذاتی عناد کی بنیاد پر تاحیات جیل کی سلاخوں کے پیچھے سٹرتا رہے گا؟

جنید حفیظ پر جو جھوٹا الزام لگایا گیا ہے اس کی غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہیے جو کہ اس کا بنیادی حق ہے۔ پاکستان میں انتہا پسندی جس سطح پر پہنچ چکی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ ہے کہ اس کی زندگی جیل میں بھی محفوظ نہیں اور کوئی جنونی اسے بھی جان سے مار دے گا۔

سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ جنید حفیظ کی رہائی کے لیے ایک منظم اور پرامن مہم کا آغاز کرے۔ سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس تنظیموں کی طرف سے ایک درخواست لکھی جائے جس میں یہ مطالبہ کیا جائے کہ جنید حفیظ کا کیس ہائی کورٹ کا جج سنے اور حکومت اس کے دفاع کے لیے بہترین وکیل مہیا کرے۔ اس درخواست پر انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کے ہیومن رائٹس کارکنوں کے دستخط کروا کر اسے چیف جسٹس، حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کو پیش کیا جائے۔

شعیب عادل
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

kashif rafique May 31, 2014 04:12pm
فرزانہ اورعوامی خود کشی!!! ا انتشار اور ذوال کی آخری حد میں ڈوبتے ہوئے معاشروں میں اگر کوئی خود کومسیحا بنا کر پیش کرے تو سمجھنے والوں کی عقل پر ماتم کے سوائے کچھ نہیں کیا جا سکتا،،ہمارے لوگوں نے مذہبی احکامات،اخلاقی افکار اور انسانیت کے فلسفے سب کو بلاطاق رکھ دیا،جس کی ذمہ داری اس ملک کے مذہبی آقاؤں،لکھاریوں،دانشوروں سمیت سب پر عائد ہوتی ہے،اس روایات سے عاری معاشرے کے مردوں کو کس نے یہ اختیار دیا کہ انصاف دینے والی جگہ پر خود انصافی کا مظاہرہ کریں،خادم اعلٰی کی انتظامیہ کے فرض شناس بھی تماشائیوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہے،کس کس کو بلیم کریں۔۔۔کس کس کو غلط کہیں۔۔۔ جب ہر فرد ملت کا ستارہ بننے کی بجائے لالچ،بغض،بے حسی،نفرت،دھوکہ،امارت کے پجاری،کرپشن،پسماندہ ذہنیت،کی اندھی دلدل سے میں پھنسے ہوئے ہیں،اسی لیے ہم اپنی بیٹیوں،بہنوں اور تو اور ماؤں کی تعظیم کرنے کو جرم تصور کرتے ہیں،صبر،نصحیت،تحمل اور دلیل تو ہمیں معاشرتی ،اخلاقی طور پر گوارا ہی نہیں۔۔۔تبہی تو ہم خود منصف بنیں حوا کی فرزانہ کو آبکھوں کے سامنے سنسار کرتے ہوئے گھبراتے نہیں۔۔۔اسی لیے تو مالک حقیقی ہم پر اپنی رحمتوں کا سایہ نہیں کر رہا، میری پاکستان میں رہنے والی فرزانہ،شبانہ،رضوانہ،شائستہ،شکیلہ،ماہ نور،فریحہ،فردوس،سمیت سب کو کہنا ہے کہ آپ آج بھی مردوں کے معاشرے میں آزاد نہیں،آپ کے حقوق مردوں کی جھوٹی اناؤں کے تابے ہے۔۔۔لہذا کسی سے امید نہ رکھیے گا،،یہاں احتجاج ،ازخود نوٹس،خادم اعلٰی کی پھرتیاں وقتی ہیں،یہاں ضمناتیں بھی ہوتیں ہیں اور واقعات بھی۔۔۔۔،سرخیاں اور رپورٹیں بھی بنتی ہیں،مگر معاشرے میں
kashif rafique May 31, 2014 04:12pm
فرزانہ اورعوامی خود کشی!!! ا انتشار اور ذوال کی آخری حد میں ڈوبتے ہوئے معاشروں میں اگر کوئی خود کومسیحا بنا کر پیش کرے تو سمجھنے والوں کی عقل پر ماتم کے سوائے کچھ نہیں کیا جا سکتا،،ہمارے لوگوں نے مذہبی احکامات،اخلاقی افکار اور انسانیت کے فلسفے سب کو بلاطاق رکھ دیا،جس کی ذمہ داری اس ملک کے مذہبی آقاؤں،لکھاریوں،دانشوروں سمیت سب پر عائد ہوتی ہے،اس روایات سے عاری معاشرے کے مردوں کو کس نے یہ اختیار دیا کہ انصاف دینے والی جگہ پر خود انصافی کا مظاہرہ کریں،خادم اعلٰی کی انتظامیہ کے فرض شناس بھی تماشائیوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہے،کس کس کو بلیم کریں۔۔۔کس کس کو غلط کہیں۔۔۔ جب ہر فرد ملت کا ستارہ بننے کی بجائے لالچ،بغض،بے حسی،نفرت،دھوکہ،امارت کے پجاری،کرپشن،پسماندہ ذہنیت،کی اندھی دلدل سے میں پھنسے ہوئے ہیں،اسی لیے ہم اپنی بیٹیوں،بہنوں اور تو اور ماؤں کی تعظیم کرنے کو جرم تصور کرتے ہیں،صبر،نصحیت،تحمل اور دلیل تو ہمیں معاشرتی ،اخلاقی طور پر گوارا ہی نہیں۔۔۔تبہی تو ہم خود منصف بنیں حوا کی فرزانہ کو آبکھوں کے سامنے سنسار کرتے ہوئے گھبراتے نہیں۔۔۔اسی لیے تو مالک حقیقی ہم پر اپنی رحمتوں کا سایہ نہیں کر رہا، میری پاکستان میں رہنے والی فرزانہ،شبانہ،رضوانہ،شائستہ،شکیلہ،ماہ نور،فریحہ،فردوس،سمیت سب کو کہنا ہے کہ آپ آج بھی مردوں کے معاشرے میں آزاد نہیں،آپ کے حقوق مردوں کی جھوٹی اناؤں کے تابے ہے۔۔۔لہذا کسی سے امید نہ رکھیے گا،،یہاں احتجاج ،ازخود نوٹس،خادم اعلٰی کی پھرتیاں وقتی ہیں،یہاں ضمناتیں بھی ہوتیں ہیں اور واقعات بھی۔۔۔۔،سرخیاں اور رپورٹیں بھی بنتی ہیں،مگر معاشرے میں س
Kala Ingrez Jun 01, 2014 04:09am
@kashif rafique: sounds interesting - please translate and I love to read your complete comment. Adil shahib, why confused us with so many issues in one article - one can't tell what are you discussing here - confused like the country? What is wrong with building transportation infrastructure? Your comments sound like - sour grapes?
usman Jun 01, 2014 07:31pm
So baddd
Zeeshan Jun 01, 2014 08:14pm
Mr Shoaib Sahib You mentioned "مسلم لیگ نواز کا انتہا پسندوں کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کا خمیازہ پوری قوم قتل و غارت کی صورت میں بھگت رہی ہے۔" Dear PML (N) is in Govt for last one year only. & please update your knowledge, the population of Lahore is above 10 Million. not few 1000s. After reading your first few lines, I easily figured out that you lack to find the truth before you write on a topic. so better go & learn ABC of journalism first PLEASE instead of wasting time & energy...
Syed Abbas Raza Rizvi Jun 02, 2014 06:20am
وطنِ عزیز پاکستان میں پھـيلتی پُھـولتی كافر فیکٹریوں کی بھرمار اور اُن سے حاصل ہونے والی تكفيرى كلِنگ مشين كے پيداواری تناظر میں شاعرِ مشرق کے كلامِ بےمثال سے ایک اقتباس، بھائی عبدل منّان سے شُكريے اور معذرت كے ساتھ.... اللّہ سے کرے دُور، تو تعلیم بھی فِتنہ املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فِتنہ ناحق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فِتنہ شمشیر ہی کیا نعرہٴِ تکبیر بھی فِتنہ
ولی خان دومڑ، جنوبی پشتونخوا Jun 02, 2014 09:54am
عادل صاحب ِ، یہاں پنجاب پر تنقید کرنا بھی خود کو لپڑے میں ڈالنا ہے یہ میٹرو بس وغیرہ وغیرہ کے بارے میں آپ نے لکھ کر آچھا نہیں کیا کیونکہ یہ لاہور کا حق ہے اور یہ پشتو ن، سندھی اور بلوچ بھی غلط ہی کہتے ہیں کہ پاکستان کامطلب پنجاب ہے اور پنجاب کا مطلب پاکستان ہے باقی صوبے تو لاہور کی کالونیاں ہیں جنکے قدرتی وسائل کو پنجاب پر صرف کیا جارہا ہے ، دوسری بات یہ کہ سول سوسائیٹی اور ہیومن رائٹس کے تنظیموں کی طرف سے مہم چلائی جائے توسر جس ملک میں حکومتی ، عدالتی اور ریاستی سطح پر دہشت گردوں ، فرقہ پرستوں اور بنیاد پرستوں کی پشت پناہی کیجاتی ہو اس ملک میں انسانی حقوق کے تنظیموں اور سول سوسائٹی کی درجن بھر خواتین اور دو تین مرد خاک مہم چلائینگے ، ؟ ہاں اگر باہر سے یعنی ؛ باہر کی دنیا سے انسانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور انہیں بے بس مظلوم پاکستانی عوام پر ترس ، آجائے تو الگ بات ہے نہ تو ، پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ،
Syed Abbas Raza Rizvi Jun 02, 2014 01:02pm
وطنِ عزیز پاکستان میں پھـيلتی پُھـولتی كافر فیکٹریوں کی بھرمار اور اُن سے حاصل ہونے والی تكفيرى كلِنگ مشين كے پيداواری تناظر میں شاعرِ مشرق کے كلامِ بےمثال سے ایک اقتباس، بھائی عبدل منّان سے شُكريے اور معذرت كے ساتھ.... اللّہ سے کرے دُور، تو تعلیم بھی فِتنہ املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فِتنہ ناحق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فِتنہ شمشیر ہی کیا نعرہٴِ تکبیر بھی فِتنہ

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024