اسلام آباد کی حفاظت کے لیے ٹرپل ون بریگیڈ ؟
اسلام آباد: شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد حکومت نے دارالحکومت میں سیکورٹی یقینی بنانے کے لیےفوج سے مدد مانگ لی۔
ہفتہ کو وزارت داخلہ کے اندرونی ذرائع، اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے پولیس کی مدد کے لیے فوج سے ٹرپل ون کی دو کمپنیاں فراہم کرنے کو کہا ہے۔
پولیس کے اختیارات رکھنے والے یہ فوجی اور رینجرز اہلکار شہر میں دہشت گردی کو روکنے کے لیے موثر کارروائیاں کر سکیں گے۔
اس کے علاوہ یہ اہلکار شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خفیہ معلومات جمع کرنے اور شہر اور اس کے نواح میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف ٹارگٹڈ ایکشن میں بھی مدد دیں گے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، ان فوجیوں کو چوکیوں اور اہم تنصیبات پر تعیناتی کے علاوہ حساس ریڈ زون کی حفاظت کی ذمہ داریاں بھی دی جائیں گی۔
یہ فیصلہ مختلف اجلاسوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ جمعرات کو ایسی ہی ایک ملاقات میں انسپکٹر جنرل آفتاب چیمہ اور سینیئر سپریٹنڈنٹ پولیس محمد علی نے راولپنڈی کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہا کہ وہ فوج کی دو کمپنیاں فراہم کریں۔
ڈپٹی کمشنر کا دفتر جلد ہی فوج کی ٹرپل ون بریگیڈ کی دو کمپنیوں اور رینجرز اہلکاروں کی پانچ پلاٹونز کی تعیناتی کے لیے باضابطہ طور پر درخواست دے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس منصوبےکا بنیادی کام مکمل ہو چکا ہے اوروہ وزارت داخلہ کی تحریری ہدایات کے منتظر ہیں تاکہ اس حوالے سے باضابطہ درخواست بھیجی جا سکے۔
ابتدائی طور پر یہ فوجی تین مہینوں کے لیے تعینات ہوں گے اور اگر انتظامیہ نے ضرورت محسوس کی تو ان کی مزید خدمات حاصل کی جا سکیں گی۔
ان فوجیوں کو انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) اور کریمنل پروسیجر کوڈ ( سی آر پی سی)کے تحت مقدمات قائم کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔
یہ فوجی چھاپے مارنے، ملزمان کو حراست میں لینے یا کسی حملے کی صورت میں کارروائی کے مجاز ہوں گے۔
ان فوجیوں کو شہر کے بیرونی حصار میں موجود سیکورٹی چیک پوسٹوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ شہر کے کُل 164 داخلی راستے ہیں، جن میں سے 45 پختہ سڑکوں پر مشتمل ہیں۔
ان میں سے فی الحال بیس سڑکوں پر سیکورٹی اہلکار تعینات ہیں جبکہ باقی پچیس اب بھی غیر محفوظ ہیں۔
اس کے علاوہ سو سے زائد کچےداخلی راستوں کی مکمل سیکورٹی موجود نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیےان فوجیوں کی مدد سے خصوصی سیل بنایا جائے گا تاکہ شہر میں چھپے دہشت گردوں کو باہر نکالا جا سکے۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید نے جمعرات بائیس مئی کو ڈان سے گفتگو میں شہر میں فوجیوں کی تعیناتی کو حکومت کی احتیاطی تدبیر قرار دیا تھا۔
تاہم ہفتہ کو رابطہ کرنے پر وہ اپنے پرانے بیان پر قائم نہ رہ سکے اور اس معاملے پر وزیر داخلہ کے موقف کو اپناتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر نے حکومت سے اس معاملے پر ابہام ختم کرنے اورپارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا 'اگر یہ خبریں سچی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دارالحکومت میں شہری انتظامیہ ناکام ہو چکی'۔
اسلام آباد سے منتخب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے ڈان کو بتایا کہ شہر کی حفاظت کے لیے فوج کی خدمات مختصر دورانیے کےلیے تو حاصل کی جا سکتی ہیں لیکن ان کے خیال میں سیکورٹی مسئلے کا یہ دور رس حل ہرگز نہیں۔