کیا اب کرکٹ عدالتوں میں کھیلیں گے؟
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں اور نت نئے اسکینڈلز کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسپاٹ و میچ فکسنگ، گیند چبانا، قیادت کا بحران ہو یا ٹیم میں اختلافات و گروپنگ سمیت نہ نجانے کتنی ایسی کہانیاں ہیں جن سے ہماری کرکٹ کی پوری تاریخ داغدار ہے۔
پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی ہوجاتی تھی کہ چلو ہر ٹیم میں کسی حد تک اس طرح کے تنازعات ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن جو کچھ گزشتہ عرصے میں قومی کرکٹ کے ساتھ ہوا اس کی مثال دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملے گی۔
گزشتہ سال سے پاکستان کرکٹ بورڈ میں چیئرمین کی کرسی پر عدالتی کھیل کچھ اس انداز میں شروع ہوا کہ میدان اور اسے سے باہر بہت سے کھیل کھیلنے والے بڑے بڑے سورما بھی چکرا کر رہ گئے۔
معاملے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ذکا اشرف نے پی سی بی آئین بنایا اور کچھ تبدیلیاں کرتے ہوئے بورڈ کے چیئرمین منتخب ہو گئے، بس پھر کیا تھا اس وقت سے عدالت اور پی سی بی کے درمیان جو کھیل شروع ہوا وہ آج تک جاری و ساری ہے۔
کبھی ذکا اشرف کو بحال کیا گیا تو کبھی حکام کی نظر کرم نجم سیٹھی پر ٹھہری اور ساتھ ساتھ اطراف سے پنکچروں کی صدائیں بھی بلند ہونے لگیں۔ جہاں ایک طرف یہ کھیل پورے زوروشور سے کھیلا جا رہا تھا تو وہیں چیئرمین سلیکشن کمیٹی کے منصب پر بھی میوزیکل چیئر کا گیم جاری رہا۔
کبھی معین کو چیئرمین سلیکشن کمیٹی بنایا جاتا تو پرانے لوگ عدالتی دروزہ کھٹکھٹا کر اپنی تقرری کی راہیں ہموار کر لیتے اور آج صورتحال یہ ہے کہ محمد الیاس کے پاس یہ منصب موجود ہے لیکن کل کا کچھ پتہ نہیں کیونکہ جس انداز سے تبدیلیوں کا عمل جاری ہے اس سے دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کل کس منصب پر کون فائز ہو گا۔
دوسری مرتبہ چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے ہٹائے جانے والے نجم سیٹھی نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بہت سے اقدامات پائپ لائن میں تھے اور قوم کو بہت سی خوشخبریاں دینا چاہتا تھا جو اب ممکن نہیں ہو سکے گا لیکن سیٹھی صاحب ذرا یہ بھی تو بتائیں کہ وہ کون سی خوشخبریاں تھیں اور آخر اب آپ وہ خوشخبریاں کیوں نہیں دے سکتے یا پھر اصل حقیقت یہ تو نہیں کہ اس طرح کے بیانات دے کر آپ قوم کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے کہ ذکا اشرف صاحب کی تو بگ تھری کے معاملے پر ان کی غیر ذمے دارانہ بیان بازی سے ان کی انتظامی قابلیت مکمل طور پر آشکار ہو چکی ہے خصوصاً وہ انگلش اور ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے پینتروں کو جھیلنے میں بری طرح ناکام رہے۔
اس موقع پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیٹھی نے انکشاف کیا تھا کہ بگ تھری کی جانب سے پاکستان کو بگ فور کی پیشکش کی گئی تھی جس کی بعدازاں ذکا نے بھی تصدیق کردی تھی، اس پیراہے میں خصوصاً پاکستان کرکٹ کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذکا کی جانب سے انکار پر کرکٹ کے تمام حلقے ہی ششدر تھے۔
اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے مطابق سیٹھی دور کی عبوری کمیٹی کی جانب سے کیے گئے تمام فیصلے کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں اور اس لحاظ سے وقار یونس کی بطور ہیڈ کوچ، گرانٹ فلاور کی بیٹنگ کوچ تعیناتی بھی صرف کاغذوں تک محدود رہے گی، صرف یہی نہیں بلکہ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا مبینہ طور پر قیادت سے ہٹائے گئے سابق ٹی ٹوئنٹی کپتان محمد حفیظ کو دوبارہ ٹیم کی باگ ڈور کی ذمے داریاں سونپی جائیں گی یا نہیں۔
لیکن پکچر یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ معاملے میں ٹوئسٹ یہ ہے کہ اب ایک طرف سیٹھی نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو دوسری جانب یہ اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ حکومت پاکستان بھی ذکا کی بحالی پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی اور سابق چیئرمین پی سی بی عارف عباسی کو وقتی طور پر یہ ذمے داریاں سونپی جا سکتی ہیں۔
اس تمام تر معاملے میں تجاویز تو کجا صرف اور صرف سوالات کا ایک طوفان دماغ میں کوند رہا ہے لیکن اس کے جواب ہمارے حکام ہی بہتر دے سکتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ آخر پی سی بی کا حتمی چیئرمین کون ہے اور یہ جنگ کب تک جاری رہے گی۔
ہر فیصلے کے بعد سابقہ فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے تو آخر پاکستان کرکٹ ٹیم جس کی کوچنگ کے اہم عہدے اس وقت خالی نظر آتے ہیں ان پر کن شخصیات کو بیٹھنے کا شرف حاصل ہو گا خصوصاً آئندہ سال ہونے والے ورلڈ کپ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک ہنگامی صورتحال کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ اگر چیئرمین پی سی بی کی میوزیکل چیئر کا یہ کھیل اسی طرح جاری رہتا تو آخر کس کے فیصلے اور کب لاگو ہوں گے؟۔
اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر ذکا اشرف کسی کو ہیڈ کوچ اور دیگر عہدے سونپتے ہیں تو کچھ دن بعد وہ خود چیئرمین رہیں گے اور یہ فیصلے تبدیل نہ کیے جائیں گے۔
عوام کو اس بات سے دلچسپی نہیں کہ چیئرمین پی سی بی سیٹھی بنتے ہیں یا ذکا، لیکن کوئی بھی پاکستانی خصوصاً کرکٹ کا چاہنے والا اس محاذ آرائی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔
یاد رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے تمام ملکوں کو اپنے بورڈ کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن ان تمام اقدامات سے پاکستان کرکٹ پر پابندی کا خطرہ بھی سر پر منڈلانے لگا ہے ۔
حکام کو اس بات کی خاطر خواہ فکر نہیں کہ ملک میں ایک عرصے سے کرکٹ نہ ہونے کے باعث پہلے سے بحران سے دوچار پاکستان کرکٹ کو اس چوہے بلی کے کھیل کا کتنا بھاری خمیازہ اٹھانا پڑے گا کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ذاتی انا کی خاطر تبدیلیوں کے عمل میں تیزی آتی جا رہی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں ایک بات تو طے ہے کہ عدالت میں کرکٹ کھیلنے کی نئی اور انوکھی روایت کا فائدہ چاہے کسی کا بھی ہو لیکن نقصان پاکستان کرکٹ کا ہی ہو گا۔
تبصرے (1) بند ہیں