... سانس گھٹتا سا ہے
’پیاری ریسا‘
میں ٹھیک ہوں مگر تھوڑا سا سانس لینے میں دقّت ہو رہی ہے۔ جیسے ہر بدلتے ہوئے موسم میں ہوتا ہے اور تم مجھے Inahaler لا کر دیتی ہو۔ مگر ابھی موسم بھی نہیں بدلا۔ بس یوں سمجھ لو تمہاری Percey Jackson کی کتابوں میں جیسے یونانی دیوتا (Zeus) اور (Hades) ناراض ہو کر طوفان برپا کر دیتے ہیں۔
ہر طرف گرد و غبار۔۔۔ تباہی جیسا سماں۔۔ غرض ایسا اندھیرا کہ انسان اپنا عکس تک نہ پہچان پائے۔ اردگرد سائے ہیں۔ ہاتھوں میں یونانی دیو مالائی کہانیوں کی طرح ہتھیار ہیں۔ "سانس گھٹتا سا ہے".
کیا بتاؤں ان ہی اندھیرے سایوں میں کہیں میرے ساتھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ یاد ہے نا جب ہم یوکرائن کے دارالحکومت کیف (Kiev) کے مظاہروں کے درمیان سے ہوتے ہوئے میوزیم گئے تھے اور شارکس کا شو دیکھا تھا۔
پھر تم نے میرے اور انّا کے ساتھ National Geographic پر ایک ڈاکیومنٹری دیکھی تھی۔ پاپ کارنز اور کولڈ ڈرنکس کے ساتھ۔ خوفناک آنکھیں، خطرناک دانت، بھوکی شارک مچھلیاں۔ جب انہیں کھانے کے لئے گوشت ڈالا گیا تو اپنے ہی ننگی تلواروں جیسے دانتوں سے، خونی دیوانگی میں ایک دوسرے کا شکار کرنے لگیں۔ تم نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ تمہاری سسکیوں بھری آواز یاد ہے۔ تمہارے آنسو ٹپک رہے تھے۔ تم میرے اور انّا کے ساتھ لپٹ گئی تھیں۔ یوں سمجھ لو میرا بھی یہی حال ہے۔
سانس گھٹتا ہے لیکن چاہ کے باوجود آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ آنکھوں سے کہتا ہوں کہ آنسو واپس سمیٹ لے۔ بس دم سا گھٹتا ہے۔ شائد تمہیں یاد ہو جب ہمارے فلیٹ پر لٹریچر فیسٹیول کے دوران سارے ساتھی رائٹرز( Writers) آئے تھے۔ انکل محمد حنیف، ایچ -ایم-نقوی، وہ تو اکثر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ایک انکل چشمہ لگائے، ہاتھ ہوا میں ہلا ہلا کر خوب باتیں کرنے والے رضا رومی۔ وہ اب ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ اُن پر اُنہیں سیاہ سایوں نے حملہ کیا جیسے کنگ آرتھر کے بارے میں جادوگر Merlin سیریز دیکھی تھی۔ خراب آدمیوں کا ٹولہ جیسے "Knights Of Medhir" کے لباس میں چھپے چہرے۔ بس ایسے ہی حملہ آور ہوں گے۔ مسئلہ یہ تھا کہ کیوں بولتے ہو، کیسے بولتے ہو۔
اور ہاں وہ یاد ہے جب کچھ دنوں پہلے میں آغا خان اسپتال بھاگا ایمرجنسی میں۔ تم نے مجھے Text Message بھیجا تھا کہ "بابا کب واپس آئیں گے۔"
میں نے کہا تھا "جلد ہی، جیسے ہی میرے ساتھی کا آپریشن ختم ہوگا۔"
تمہیں بتایا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ چھ گولیاں جسم میں داغیں تھیں غالباً اُنہیں یونانی دیو مالائی ہتھیار بند سایوں نے۔ حامد میر بھی Sherlok Holmes کی طرح گھتیاں سلجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ شائد انہوں نے تمہاری کہانی کی کتاب Harry Potter کے کردار’’Voldemor کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اب تو حامد میر کافی بہتر ہیں۔ لیکن میرے بعض ساتھی اب بھی اُن کے جسم میں نشتر لگانے میں مصروف ہیں۔ بس ہتھیار کی جگہ زبان استعمال کر رہے ہیں۔ شائد گڈ مڈ ہیں اُنہی اندھیرے سایوں میں۔ ہر طرف گرد و غبار ہے۔ تباہی جیسا سماں۔ ارد گرد گہرے کالے سائے ہیں۔ ہاتھوں میں ہتھیار لئے۔
تمہارے لئے لاہور سے کتابیں خرید رہا تھا کہ پتا چلا کہ انّا اور بابا کے دوست راشد رحمن کو ظالم چہرے والوں نے مار دیا۔ راشد ایک وکیل تھے اور بے آواز قیدیوں کی آواز بلند کرتے تھے۔ حملہ آور ظالم اژدہوں کی مانند ہی ہوں گے، لیکن تمہارے لئے The Serpent's Shadow (اژدھے کا سایہ) کتاب لے لی ہے۔ جس میں بہن بھائی کارٹر اور سیڈی دنیا کو بچانے کے لئے ظالم اژدہوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ بس اپنا خیال رکھنا۔ جلدی گھر واپس آؤں گا۔ ہاں میرا Inhaler لینا نہ بھولنا۔
فقط 'بابا'
تبصرے (6) بند ہیں