شوبھا ڈے غلط نہیں ہوسکتیں
شوبھا ڈے پاکستان کے ادبی میلوں میں بے حد اور ہمیشہ مقبول شخصیت رہی ہیں- انھوں نے ٹائمز آف اِنڈیا میں ایک دلچسپ بلاگ تحریر کیا اور گریراج سنگھ کو سرزنش کی جنہوں نے ان تمام لوگوں کو پاکستان جانے کا "مشورہ" دیا تھا جو نریندر مودی کی حمایت نہیں کررہے-
اس کا عنوان بھی متوجہ کرنے والا تھا -- پاکستان کی جانب سفر؟ ہمارا سامان تیار ہے-
ڈے نے ان سے یہ نہں پوچھا کہ پاکستان ہی کا خصوصی ذکر کیوں، دوسرے ہمسایہ ملک کیوں نہیں؟ نیپال، بنگلہ دیش یا سری لنکا؟ چین کیوں نہیں جو پاکستان سے کافی بڑا ہے اور ان کے ملک سے بہت اچھے تعلقات بھی نہیں ہیں؟
میرے دوست بدر عالم، جو ہیرالڈ کے ایڈیٹر ہیں ان کا ایک زبردست مشورہ تھا- ہم ان کے کشادہ ذہن اور سیکولر ہندوستانیوں کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں، بشرطیکہ گریراج سنگھ ہمارے انتہا پسندوں کو قبول کرلیں-
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئےکہ ایک ہی قبیلے کے پرندوں، گہرے سبز کلغی والوں یا زعفرانی رنگ والوں، نے ہی ہمیشہ دونوں ملکوں کی مشکلات اور دکھ بڑھانے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے- ہم یقیناً، شوبھا ڈے، سدھیندرا کلکرنی، گلزار، بینا، سرکار الیاس، ریتو مینن اور ان جیسے دوسروں کو لینے میں بے حد خوشی محسوس کریں گے- کتنے رنج کی بات ہے کہ خشونت سنگھ دنیا سے تھوڑا پہلے ہی رخصت ہو گئے-
اب مس ڈے کے بارے میں، جنہیں چاہئے کہ (How to win Friends and Influence People) کا ترمیم شدہ ایڈیشن لکھ ڈالیں- انہوں نے حالیہ دنوں میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ادبی میلے میں لوگوں کا دل جیت لیا تھا جب انہوں نے اس کے دو اجلاسوں میں شرکت کی- مزید یہ کہ اجلاس کے بعد کچھ سخت بور لوگوں کو بھی بغیر پیشانی پر بل ڈالے ہوئے برداشت کیا-
تصویر کی جگہ
Magazine Culture کے اجلاس میں شرکت کرنے والے کچھ پینل ممبران- رمیل محی الدین، مہوش امین، شوبھا ڈے اور آمنہ علی- درمیان میں ماڈریٹر آصف نورانی، جنہوں نے اپنے آپ کو گلاب کے پھولوں کے درمیان کانٹا کہا-
بر سر تذکرہ، اس سال دارالحکومت کے ادبی میلے میں شرکت کرنے والے شاید کراچی اور لاہور کے مقابلے میں کم ہوں کیونکہ اسلام آباد میں لوگ چھٹی کے دن صبح کو جلد اٹھنے کے عادی نہیں ہیں- لیکن حاضرین اور مقررین کی قابلیت اور صلاحیت میں کسی قسم کی کمی نہیں تھی-
امینہ سید، او بی ای (OBE)، جو ملک کے سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت میں ادبی میلوں کی بانی اور روح رواں ہیں، کا ارادہ ہے کہ اسلام آباد میں اگلے سال دس بجے کی بجائے گیارہ بجے سے کارروائیوں کا آغاز کیا جائے- جو زیادہ مناسب ہے-
ایک اور شخص جسے میلے کے منتظمین کو ضرور مدعو کرنا چاہئے وہ سابق صحافی اورایک اسکالر، سدھیندرا کلکرنی ہیں، پاکستان اور پاکستانیوں کے دوست، جنہیں ان کے دوست سدھین کہتے ہیں، وہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے سے پہلے ایک کٹر کمیونسٹ تھے- لیکن جب اٹل بہاری واجپائی کی بصارت اور گہرائی سے مسحور ہوئے تو ان کی کایا دوسرے رخ پر پلٹ گئی-
وہ اٹل جی کا رائٹ ہینڈ بن گئے- سدھین ہی نے وہ تقریر بھی لکھی تھی، جو ایل کے ایڈوانی نے قائد اعظم کے مزار پر کی تھی- انہوں نے جناح صاحب کو ایک سیکولر شخص کہا تھا، جس کی وجہ سے ایڈوانی کی پارٹی کے ممبران سخت ناراض ہو گئے تھے- کلکرنی مودی کے انتہا پسند خیالات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں اس لئے انہوں نے بی جے پی سے دوری اختیار کر لی ہے-
تجربے نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں لوگوں کی اکثریت ایک دوسرے سے کوئی بغض نہیں رکھتی ہے- ممبئی اور پونے کے میرے پچھلے سال کے سفر کے دوران جو سوال سب سے زیادہ پوچھا گیا وہ تھا، 'پاکستان میں پیاز کی قیمت کیا ہے؟' یہ اس وجہ سے کہ ان دنوں پیاز 100 روپے فی کلو بک رہی تھی- پاکستان میں قیمت 50 روپے تھی- البتہ ٹماٹر کی قیمت بالکل الٹ تھی-
مجھے پاکستان اور ہندوستان کی تہذیبی قربت پر بولنے کیلئے Observer Research Foundation کی ممبئی برانچ میں بلایا گیا- لوگوں کا ردعمل دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا- اس اجلاس کی صدارت مشہور شاعر گلزارنے کی تھی- اس موقع پر بولتے ہوئے، انہوں نے پاکستان کو اپنا وطن (وہ دینا میں پید اہوئے تھے) قرار دیا اور ہندوستان کو اپنا ملک کہا-
میرے تہذیبی قربت کے تعلقات کی اپیل کے جواب میں لوگوں کے جذبات دیکھنے کے قابل تھے- سوال جواب کا سیشن بھی بھرپور تھا، اگرچہ کہ جیسے پاکستان میں بھی، اس قسم کے موقعوں پر اکا دکا بے تکے سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں-
مجھ سے لوگوں نے پوچھا کہ کراچی میں داؤد ابراہیم کہاں چھپا ہوا ہے- اس سوال پر لوگوں نے ناپسندیدگی کا بھی اظہار کیا لیکن میرا خیال تھا کہ اس سوال کا جواب نہیں دینا اپنی کمزوری کا اظہار ہوگا، لہٰذا میں نے جو جواب دیا وہ یہ تھا؛
"یہ سوال آپ ایک غلط انسان سے پوچھ رہے ہیں، میں تو اپنے پڑوسی کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا، تو آپ کے دوست کے بارے میں میں کیا بتا سکتا ہوں"-
میں جتنی مرتبہ ہندوستان گیا ہوں، مجھے اب تک صرف ایک شخص ملا ہے جو پاکستان کا شدید مخالف تھا- یہ انڈیا انٹرنیشنل سنٹر، دہلی، کا واقعہ ہے، جہاں Tales of Two Cities کا اجراء ہوا تھا، یہ کتاب، میں نے کلدیپ نائرکے ساتھ مل کر لکھی تھی، یہ 2008ء کی بات ہے- فنکشن کے ختم ہونے کے بعد، وہ شخص بے تکان پاکستان کے خلاف بولتا رہا- میں نے اسے نطرانداز کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا-
"آپ ہندوستانی نہیں معلوم ہوتے"- میں نے ان سے پوچھا-
"آپ نے ایسا کیسے سوچا؟ مجھے فخر ہے کہ میں ہندوستانی ہوں" اس نے اونچی اواز میں جواب دیا-
" مجھے یقین نہیں ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں ہم لوگ مہمانوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آتے ہیں- لیکن آپ کا رویہ تو ایسا نہیں ہے" میں نے غصہ میں آئے بغیر کہا-
" تو پھر ہم کس چیز کے بارے میں باتیں کریں"؟ اس نے پوچھا-
"موسیقی کے بارے میں" میں نے کہا، یہ سوچتے ہوئے کہ یہ شاید سب سے زیادہ غیر متنازعہ موضوع ہو گا-
" کیا لتا منگیشکر نورجہاں سے زیادہ بہتر گلوکارہ نہیں ہے " ، کچھ زیادہ ہی ضدی قسم کا انسان تھا-
"ان سے کہہ دیں کہ سیب اور نارنگی کا مقابلہ نہیں کرنا چاہئے" میں نے دوسرے لوگوں سے کہا جو اسے وہاں سے ہٹا لے گئے- اس کے جانے کے بعد جن لوگوں سے میری باتیں ہوئیں وہ نہایت معقول لوگ تھے-
سب سے خوبصورت سوال مجھ سے پونے میں پوچھا گیا، جہاں میں 35 سال کے بعد گیا تھا- ایک اسکول میں، یہ سوال پوچھنے والی پانچویں کلاس کی ایک طالبہ تھی-
"پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول کون ہے، شاہ رخ خان یا سلمان خان؟"
"ہمارے ہاں ابھی تک اس کے بارے میں کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی ہے،" میں نے ٹالتے ہوئے جواب دیا-
"آپ کو سب سے زیادہ کون پسند ہے؟"
"مجھے سب سے زیادہ مادھوری ڈکشٹ پسند ہے" میں نے کہا اور سب لوگ ہنس پڑے لیکن وہ بچی بالکل نہیں ہنسی- کیونکہ اسے اس کے سوال کا جواب نہیں ملا تھا اس لئے اس کا رویہ بالکل درست تھا-
مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر مسٹر گریراج سنگھ مادھوری ڈکشٹ کو بھی پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیں-
ترجمہ: علی مظفر جعفری