نیو یارک، نیو یارک
یہ بات کسی لطیفے سے کم نہیں کہ اقوام متحدہ مین ہٹن جزیرے کے جنوبی سرے پر واقع ہے- اصلی یونائیٹڈ نیشنز تو باقی سارے نیویارک میں بستا ہے- کسی بھی گلی میں قدم رکھیں تو آپ کو فوراً مختلف قسم کی خوشبوئیں گھیر لیں گی - مختلف دوکانداروں کے کبابوں کی خوشبو، مختلف براعظموں کی کوفیوں کی خوشبو، تیز سالن اور مختلف نوڈلز کی مہک-
نیویارک نہ صرف مختلف خوشبوؤں کا شہر ہے بلکہ یہ شہر آوازوں کا بھی ہے- ذرا یونائیٹڈ نیشنز کے کسی کمیٹی روم میں بیٹھ جائیں اور آپ کو معلوم ہو گا کہ زبانوں کا تنوع ترجمے سے کم ہونے کے بجائے کتنا بڑھ جاتا ہے- اور باہر موجود ہجوم میں گھومیں تو آپ کو فوراً پتہ چلتا ہے انسانی جذبات کی ترجمانی کی کتنی کثرت ہے-
نیو یارک کی سڑکوں پر جتنی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اتنی یونائیٹڈ نیشنز کی بلڈنگ میں بھی نہیں بولی جاتیں- اقوام متحدہ گلوبلزم کے پرچار کے سوا کچھ کرتا نہیں اور اور نیویارک حقیقی معنوں اس کو لاگو کرتا ہے اور وہ بھی لگاتار 24/7/365-
میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ میں داخل ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت اپنا ماضی تلاش کر رہی ہو- کوئی ایسی معلوم تہذیب نہیں ہو گی جس کی یہاں کی پرشکوہ گیلریوں میں نمائیندگی نہیں، اور کوئی ایسی چیز نہیں جسے دیکھ کر آپ فخر محسوس نہ کریں کہ آپ بنی نوع انسان سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ سب اتنی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ آپ عش عش کر اٹھیں-
مشہور شاعر ورڈزورتھ کو "انتہائی معمولی پھولوں" کو دیکھ کر رونا آ گیا تھا اور اگر اس نے کبھی میٹروپولیٹن میوزیم کی سیر کی ہوتی تو اس کا تو نروس بریک ڈاؤن ہو جانا تھا-
نمائش کیلئے رکھا گیا ہر آئٹم - چاہے وہ کسی قدیم خوبصورت حسینہ کی پہنی چھوٹی سی سونے کی بالی ہو یا کسی طاقتور فرعون کے اعزاز میں تراشا گیا کوئی بھاری بھرکم ستون والا پتھر - ہر چیز انفرادی توجہ دینے اور احترام کئے جانے کے لائق ہے- کچھ گیلریوں کو تو برسوں سے چھیڑا نہیں گیا یہاں تک کہ آپ کو ان میں اپنی پسندیدہ چیز یا ٹکڑا بھی وہیں ملے گا جہاں آپ نے اسے برسوں پہلے دیکھا تھا- دیگر گیلریوں کو حال ہی میں جدیدیت کا رنگ دیا گیا ہے-
ان میں شاید سب سے شاندار اسلامک گیلری ہے جو کہ اشیاء کا ایسا دلکش ڈسپلے ہے جو ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ بنی نوع انسان پر شہزادوں کی سرپرستی اور عام لوگوں کی حق کا کتنا قرض ہے- جہانگیر جیسا شہشاہ ہی ذاتی استعمال کیلئے سبز رنگ کے گردہ پتھر کا باریکی سے تراشا ہوا انک جار بنوا سکتا تھا، ایک ایسا پتھر جو تراشنے کیلئے غیر موزوں سمجھا جاتا ہے-
ایک خود میں گم شہزادی ہی اپنے ہاتھ کے آئینے کے پیچھے سبز جیڈ کی طلاکاری سے مزین جالی دار بیکنگ بنوا سکتی تھی جس کی نازک کاریگری کا اندازہ اور فائدے سوچ سمجھ کر کی جانے والی بیک لائٹنگ سے ہوتا ہو-
یہ صرف مشنریز ہی کیلئے ممکن تھا کہ وہ بھیڑ کی پتھری جیسی معمولی چیز کو کوئی مقدس چیز (جسے گوا پتھر کے نام سے جانا جاتا ہے) بتا کر چلا سکیں- ان اشیاء کو انتہائی نفاست سے پالش کر کے ایک گولڈن گلوب میں رکھ کر عقیدتمندوں کو فروخت کیلئے پیش کیا جاتا تھا- یہ کچھ ایسا ہی سرپرائز ہے جیسا روسی جوہری نے اپنے شاہانہ ایسٹر ایگز میں سے ایک میں ژار کے پسندیدہ پالتو جانور کے بالوں کا گولہ چھپایا تھا-
میٹروپولیٹن میوزیم کے قریب ہی 79 لیگزنٹن پر، وید مہتا اپنی دلکش بیوی لن کے ساتھ رہتے ہیں- لاہور میں پیدا ہونے والے اور ابتدائی تعلیم لاہور کے شیرانوالہ گیٹ کے اندر ایک چھوٹے سے اسکول میں حاصل والے وید نے اپنی گھٹن سے نکل کر پہلے آکسفورڈ اور پھر ہارورڈ سے تعلیم حاصل کی- انہوں نے بطور فیچر رائیٹر نیو یورکر جوائن کیا اور متنوع موضوعات پر کتابیں لکھ چکے ہیں- ان موضوعات میں یادداشتیں (فیس ٹو فیس)، فیملی بائیوگرافیز (ڈیڈی جی چاچا جی)، ہندوستان کا ایک شاندار پورٹریٹ، عیسائیت (دی نیو تھیولوجین) اور ایک ایسی ہے جو ایک آئیکن کو کھنگالتی ہے (مہاتما گاندھی اینڈ ہز اپوسٹلز)-
سمجھ میں آتا ہے کہ آج اسی سالہ وید مہتا زیادہ وقت لکھنے کے بجائے پڑھنے میں گزارتے ہیں، پر ان کے ساتھ وقت گزارنے سے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ انسانی ذہن کتنا کچھ اپنے اندر سمونے کی طاقت رکھتا ہے- ان کے سوالوں کی کوئی حد نہیں- وہ سب کچھ سنتے بھی ہیں اور اپنے اندر اسے جذب بھی کرتے ہیں- تاہم یہ ٹریفک یکطرفہ نہیں- برصغیر کی سیاست کے بارے میں ان کی معلومات میں وقت یا فاصلے کی وجہ سے کوئی کمی نہیں آئی- وہ نہرو سے ملے تو بھی ایسے ہی تھے اور اگر وہ مودی سے بھی ملتے تو بھی وہ اسی طرح سوالات کرتے-
انہوں نے اپنی بیوی لن کے ساتھ میرا وہ لیکچر سننے کی بھی تکلیف اٹھائی جو میں نے نیویارک کے سکھ آرٹ اینڈ فلم فاؤنڈیشن میں چار مئی کو دیا- یہ اس فیسٹیول کی دسویں سالگرہ بھی تھی جو اس کے سپانسر تیجی بھنڈرا اور ان کے امریکی سکھ ساتھیوں کی گہری وابستگی کی بھی غماز ہے-
گو کہ ایک شروع کے امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے "ادھر ادھر سے آئے امریکنوں" یا HYPHENATED AMERICANS سے دور رہنے کی قسم کھائی تھی لیکن آج کا امریکہ تو چل ادھر ادھر کے لوگوں کے دم سے رہا ہے- امریکی سکھ کمیونٹی، دوسرے نسلی گروپوں کی طرح، ایسے موقعوں کو خود کی شناخت یاد دلانے کیلئے استعمال کرتی ہیں-
بہت جلد اور یقیناً ہماری زندگیوں ہی میں ان ادھر ادھر سے آئے امیگرنٹس کی تعداد ان لوگوں سے زیادہ ہو گی جو نسبتاً کم رومانوی ٹرانسپورٹ پر یہاں آئے تھے- امریکنوں کو ایک افروامریکن صدر بنانے میں صدیاں لگ گئیں، ہو سکتا ہے کہ اگلی ایک دہائی میں یہاں کی صدر کوئی عورت یا کوئی ہسپانک ہو-
اور بھلے جو بھی اوبامہ کے بعد صدر بنے، اسے واشنگٹن میں یا اقوام متحدہ پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے- نیو یارک ہی یہ جگہ ہے جہاں دنیا بستی ہے-
لکھاری لکھنے کے علاوہ آرٹ ہسٹورین کا بھی کام کرتے ہیں-
ترجمہ: شعیب بن جمیل