مولانا فضل الرحمان کے لیے وفاقی وزیر کا درجہ
اسلام آباد: پاکستان کی قومی اسمبلی میں کشمیر سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو وفاقی وزیر کے برابر کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ روز جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکشن کے مطابق یہ اقدام وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کیا گیا۔
نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے یہ اقدام بزنس کے رولز1973ء کی دفعہ 15 (1) (جی) کے تحت کیا گیا، جس کی سیریل نمبر ون اے میں اور 5 اے میں اس بارے میں واضح طور پر لکھا ہے۔
جبکہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو وفاقی وزیر کا درجہ دینے کی ہدایت کی گئی۔
دوسری جانب گزشتہ روز جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع سرکٹ ہاوس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اسٹیبلشمنٹ پر ہے اور اس کے بغیر مذاکرات کی کامیابی غیر واضح ہے۔
انہوں نے تحفظِ پاکستان بل پر بھی تنقید کی اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
ایک میڈیا گروپ اور خفیہ ایجنسی کے درمیان جاری تنازعہ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے دونوں اطراف سے کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے کوئی مناسب اقدام اٹھانے کی تجویز دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی حساس صورتحال کی وجہ سے اسٹیک ہولڈرز کو محتاط رہ کر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینی چاہیں۔
جبکہ ملتان شہر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا حصہ ہیں، اسی لیے وہ جانتے ہیں کہ یہ بے نتیجہ رہ جائیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت نے کارروائی کے آپشن کو استعمال نہیں کیا تو انہوں نے مذاکرات کی تجویز دی تھی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت جمہوریت کا تحفظ کرے گی اور تمام اداروں کو اپنی آئینی حد میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے تصادم کی راہ اپنانے کے بجائے اداروں کو رواداری کے ساتھ کام کرتے ہوئے تنازعات سے گزیر کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے کی جانب سے آئینی حدود کی خلاف ورزی ملک کے لیے خطرہ ہوگی۔
مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو کراچی، بلوچستان اور فاٹا میں امن و امان کی صورتحال پر تبادلۂ خیال کے لیے ایک کل جماعتی کانفرنس طلب کرنی چاہیے۔