بنگالن بوا کا بیٹا
آپ علیا کو جانتے ہیں؟ نہیں جانتے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جانتے ہوں گے لیکن شاید کسی اور نام سے کیوں کہ ہر محلے میں ایک علیا ہوتا ہے.
ہمارے ہاں جو علیا تھا اس کا اصل نام تو خدا جانے کیا تھا لیکن سب اسے اس کی ماں بنگالن بوا کی طرح علیا ہی کہہ کر پکارتے تھے اور پکار بھی اسے اکثر پڑا کرتی تھی اس لیے محلے کا بچہ بچہ اس کو اسی نام سے جانتا اور بلاتا تھا-
علیا کی ماں بنگالن بواخود کہاں رہتی تھی معلوم نہیں لیکن اس کی ضرورت ہر گھر میں رہا کرتی تھی، اور علیا، وہ جب تک چھوٹا تھا ہر گھر میں رہا لیکن جب اس نے ذرا قد نکالا تو اونچے اونچے گھروں میں بھی اس پانچ ساڑھے پانچ فٹ کے علیا کے لیے گنجائش نہ نکل سکی- سو وہ گلی میں آ گیا-
صبح سے شام تک سردیوں میں دھوپ کے ساتھ ساتھ اور گرمیوں میں الٹے رخ چوکھٹ چوکھٹ سفر کرتا علیا رات کو کہاں سوتا تھا نہ کبھی ہم نے اس سے پوچھا نہ اس نے خود کبھی بتایا- ہم اس سے زیادہ بات بھی نہیں کرتے تھے- اکثر جب ہم صبح سکول جانے کے لیے نکلتے تو وہ شاہ صاحب کی بیٹھک کے باہر بیٹھا چڑیوں کو باسی روٹیاں ڈالتا ملتا تھا- شاید وہیں سو جاتا ہو گا-
یہ شاہ صاحب بھی دلچسپ آدمی تھے، ان کی بیٹھک کا دروازہ گلی میں کھلتا تھا اور یہ اس بیٹھک میں سارا دن بیٹھے اپنے دوستوں کے ساتھ سیاست پر بحث کیا کرتے تھے یا اخبار پڑھتے نظر آتے تھے-
انہی اخبار والے شاہ صاحب نے خدا جانے کس دھن میں ایک بار علیا سے کہا تھا، علیا تجھے پتا ہے تو بھی بہت سٹریٹیجیکلی لوکیٹیڈ ہے- بات تو علیا کی سمجھ میں خاک آئی ہو گی لیکن اس نے دانت ضرور نکالے اور ہنستے ہنستے کہا 'شاہ صاحب ساتھ والی آپا پرانے اخبار منگوا رہی ہیں، لے جاؤں؟'
شاہ صاحب کی بات بھی کچھ ایسی غلط نہیں تھی- علیا صبح سے شام تک ہر گھر کے دروازے پہ کچھ دیر کو بیٹھا ضرور ملتا تھا، بہت سے بہت ایک آواز کی دوری پر.
محلے بھر میں کسی کو کوئی کام ہو 'علیا علیا' کی پکاریں پوری گلی سنتی تھی اور علیا ہر کام لپک جھپک کر بھی آتا تھا- کسی کے گھر مہمان آئے، گردن دروازے سے نکالی، 'علیا او علیا جا بھگ کے دکان سے بوتل کھلوا لا مہمان آ یے ہیں اور دیکھیو ساتھ سٹرا بھی لائیو!'
علیا بھاگا بھاگا جاتا اور واپس آتے ٹھنڈی بوتل کو دونوں ہاتھوں میں بھینچے ٹھنڈ اپنے اندر اتارنے کی کوشش کرتا لوٹ آتا- 'علیا کہاں مرا ہوا تھا تجھے نہیں پتا شام کو برات آنی ہے چل میرا بچہ شاباش وہاں سے چونے کی بوری اٹھا نالی کے ساتھ ساتھ ڈال دے-' اور علیا سنسناتی دوپہر میں اپنے کٹے پھٹے چونا بھرے ہاتھوں میں بوری تھامے سسکاریاں ہونٹوں میں دباۓ بیٹا بنا پھر رہا ہے-
شام کو برات آتی تو اس کے جانے تک علیا کسی نہ کسی کام میں جتا رہتا- جھوٹن میں سے اسے بھی حصہ ملتا تو جو کھا سکتا تھا کھا پی لیتا ہاں ایک روٹی اپنے کھیسے میں رکھ کے ضرور لے جاتا- اسی روٹی کو وہ بھورا بھورا کر کے صبح شاہ صاحب کی سیڑھی پہ بیٹھ کے چڑیوں کو ڈالا کرتا تھا-
روٹیاں دو ملیں یا ایک، صبح کچھ نہ کچھ بھورے شاہ صاحب کی بیٹھک کے آگے ضرور ہوتے تھے- چڑیاں بھی اس روٹین کی عادی ہو گیں تھیں اور صبح ہوتے ہی گلی میں اتر آتی تھیں. کوئی اس کے کندھے پہ تو کوئی سر پر، کچھ تو اس کی ہتھیلی پھ رکھے بھورے بھی چگ لیتیں-
خدا جانے علیا کو اس کام میں کیا مزہ آتا تھا کہ وہ دیر تک بیٹھا انھیں دیکھتا رہتا تھا- اس کام سے فارغ ہو کے علیا شاہ صاحب کی بیٹھک میں صبح ہی صبح اخبار پڑھنے بلکہ یوں کہیں اخبار سننے کے لیے جمع ہونے والے دوستوں کے لیے نکّڑ کے ہوٹل سے چاۓ لاتا اور اس کے بعد چل سو چل.
میں بھی کبھی کبھی شاہ صاحب کی بیٹھک میں جاتا ہوں، اچھی گپ شپ ہو جاتی ہے ابھی کل ہی شاہ صاحب بتا رہے تھے کہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے، ایک چھوٹا سا گاؤں یا پھر شاید ایک محلہ- مجھے لگا کچھ ملک بھی شاید علیا کی طرح ہوتے ہیں، وہی دروازے دروازے بیٹھنا، کبھی چھاؤں کے پیچھے پیچھے کبھی دھوپ کے آگے آگے، اور وہی علیا کی طرح 'سٹریٹیجیک لوکیشن'، ایک آواز کی دوری پر-
'علیا حالات خراب ہیں، گلی کی نکّڑ پہ بیٹھ جا، آتے جاتے پہ نظر رکھا کر-'
'جو حکم شاہ صاحب.'
'علیا کل کوئی مسجد سے موٹر اتر کے لے گیا تھا آج سے مسجد کی سیڑھیوں پہ سونا.'
'جیسا کہتے ہیں مولوی صاحب-'
'علیا لے بیٹا بچوں کو بولنگ کرا دے.'
'ابھی آیا بڑی اماں-'
سنا ہے پچھلے دنوں علیا کے ہاتھ سے بھورے چگنے والی چڑیوں پہ کسی شرارتی بچے نے چھرے والی بندوق سے گولی چلا دی تھی، عاس کے بعد سے علیا کسی سے نہیں بولا، چپ چاپ سیڑھی پہ بیٹھا رہتا ہے، لاکھ آواز دو کوئی جواب نہیں … کیا کوئی علیا سے گیا گزرا بھی ہو سکتا ہے-
تبصرے (2) بند ہیں