• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

ہمارے اطراف کی دنیا

شائع April 29, 2014
چین باہر کی جانب سمندری مواصلاتی لائنوں کے تحفظ کا دائرہ ایسے وقت پھیلا رہا ہے جبکہ امریکہ کی حکمت عملی اٹلانٹک سے ہٹ کر پیسفک کا رخ اختیار کررہی ہے.اے ایف پی فائل فوٹو۔۔۔۔
چین باہر کی جانب سمندری مواصلاتی لائنوں کے تحفظ کا دائرہ ایسے وقت پھیلا رہا ہے جبکہ امریکہ کی حکمت عملی اٹلانٹک سے ہٹ کر پیسفک کا رخ اختیار کررہی ہے.اے ایف پی فائل فوٹو۔۔۔۔

ہمارے چاروں طرف کی دنیا میں بہت کچھ ہورہا ہے، قریب ترین پڑوس میں بھی اور ہم سے دور بھی، جسکی نوعیت محض جغرافیائی سیاسی، اسٹریٹجک یا فوجی ہی نہیں ہے، بلکہ اسکے دوررس معاشی نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں-

تجربہ کارپالیسی سازوں اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین، کے علاوہ بھی پاکستان میں بہت سے لوگ اس علاقے کو دیکھنے کے لئے وہ شیشہ استعمال کرتے ہیں جس میں یہ دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے پڑوس میں کیا ہورہا ہے -----مثلاً ہندوستان اور افغانستان کے انتخابات جو آجکل ہورہے ہیں----جسکے نتیجے میں ہمارے لئے ان زبردست تبدیلیوں کو دیکھنا قدرے مشکل ہورہا ہے جو ایشیاء کے وسیع و عریض خطے میں رونما ہورہی ہیں-

مثلاً چین میں ہونیوالے دو واقعات کو لیجیئے-The Boao Forum for Asia سالانہ کانفرنس جس کا آغاز 2001 سے ہوا تھا اور چین اس وقت سے اسکی میزبانی کے فرائض انجام دے رہا ہے- اس سال بہت سے نئے ذیلی موضوعات اس میں شامل کئے گئے ہیں جس کا مقصد ایشیاء کے لئے 'ترقی کے نئے محرکات' تلاش کرنا ہے- ترقی کے امکانی محرکات میں نئی منڈیاں، توانائی کے سستے اور زیادہ با اعتماد وسائل اور دیگر قدرتی ذرائع، ایجادات اور فنی تعاون اور گہری معاشی اصلاحات شامل ہیں-

کانفرنس کے ایک سشن کا موضوع تھا: Maritime Silk Road کی بحالی کا ویژن- امریکہ اس بحری شاہراہ ریشم کو چین کی جانب سے دیا جانیوالا نیا نام سمجھتا ہے جسے امریکی مبصرین 2005 سے موتیوں کی مالا کی حکمت عملی کہتے آئے ہیں ----بحری اڈوں کا قیام، ایندھن بھرنے اور ٹھہرنے کے اسٹیشنز، چین کے سمندری مواصلاتی راستہ کی نگرانی کی سہولتیں جو مغربی بحر ہند سے لیکر مشرقی بحر چین تک پھیلی ہونگی-

جن دنوں Boao Forum کانفرنس جاری تھی، تقریباً اسی زمانے میں امریکہ کے ڈیفنس سیکرٹری کے لئے چین کے پہلے ایر کرافٹ کیریئر Liaoning کے دورہ کا اہتمام خود ان ہی کی درخواست پر کیا گیا تھا (جو سوویت دور کے 'Varyag' کی بدلی ہوئی شکل تھی)- اکثر مبصرین چین کے بحریہ کی ترقی کو ایک تاریخی قدم کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جسکے مطابق اب وہ 'دفاعی' پوزیشن سے نکل کر چین کے مواصلاتی سمندری حدود(SLOCs) کے اطراف کے سمندروں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوجائیگا-

اس میں حیرت کا کوئی مقام نہیں کہ چین اپنے بحری بیڑے کو جہاں جہاں اتارے گا ان میں سے سب سے زیادہ نمایاں جگہ ساوتھ چائنا سی میں آبنائے ملاکا کے اطراف ہوگی---- صرف بعض ساحلی ممالک کے ساتھ اس کے علاقائی تنازعات کی وجہ سے ہی نہیں، بلکہ اس لئے بھی کہ اس آبنائے کو چین کے اصل علاقوں تک تیل اور دیگر قدرتی مال لانے والے جہازوں کے لئے 'تنگ راستہ' سمجھا جاتا ہے-

چین باہر کی جانب سمندری مواصلاتی لائنوں کے تحفظ کا دائرہ ایسے وقت پھیلا رہا ہے جبکہ امریکہ کی حکمت عملی اٹلانٹک سے ہٹ کر پیسفک کا رخ اختیار کررہی ہے، خاص طور پر ایشیاء کی جانب جو اسکی 'ایشیاء محور' حکمت عملی کا حصہ ہے- یہ تبدیلی اس بات کا اعتراف ہے کہ ایشیاء کے اندر بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیتوں کی حامل بہت سی معاشی طاقتیں نمودار ہورہی ہیں-چنانچہ، جہاں ایشیاء کی آبادی دنیا کی آبادی کا 63 فی صد حصہ ہے،اس میں قوت خرید کے لحاظ سے دنیا کی تیس سب سے بڑی معیشتوں میں سے بارہ معیشتیں جن میں دنیا کی دوسری، تیسری اور چوتھی سب سے بڑی معیشتیں شامل ہیں، آباد ہیں- ایشیاء میں قوت خرید کے تناسب کے لحاظ سے عالمی جی ڈی پی کا 43 فیصد حصہ پیدا ہوتا ہے-

(دنیا میں جو زبردست تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اسے سمجھنے کے لئے اور اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ "بحر ہند کا نقشہ کیوں 21ویں صدی کا نقشہ ہوگا رابرٹ کپلان مونسون کی کتاب The Indian Ocean and the future of American Power ضرور پڑھیئے-)

یقینی طور پر، ایشیاء میں صرف اسٹریٹجی اور تعاون کے میدانوں میں ہی مقابلہ اور تعاون نظر نہیں آتا- علاقائی تعاون کے علاوہ پین- ایشیائی تعاون --- معاشی اور حمل و نقل کی راہداریوں سے لیکر کان کنی کے بڑے بڑے پروجیکٹ اورتوانائی کی پائپ لائنوں کے ترجیحی تجارتی منصوبے تیار کئے جارہے ہیں-

ان میں سے سب سے اہم سنٹرل ایشین ریجنل اکنامک کوآپریشن کی راہداریوں کے منصوبے ہیں جو ایشیائی ترقیاتی بینک کی سربراہی میں شروع کئے جارہے ہیں نیز امریکہ بھی ٹرانس-پیسیفک پارٹنرشپ اگریمنٹ کے ذریعے ایک عظیم الشان آزاد تجارتی زون قائم کرنا چاہتا ہے-Carec کے تحت چھ دو طرفہ راہداریاں قائم کی جائنگی جو افقی نوعیت کی ہونگی، ایشیاء سے یورپ تک اور عمودی طور پر روس سے جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ تک راہداریاں قائم کی جائنگی- دی ٹرانس-پیسفک پارٹنرشپ اگریمنٹ کے تحت ابتدائی طور پر پیسفک کے ساحل پر واقع نو ممالک کے درمیان آزاد تجارتی زون قائم کیا جائے گا جسکی سربراہی امریکہ کرےگا-

اسکے علاوہ بھی بے شمار علاقائی اقدامات یا تو زیر غور ہیں یا آہستہ آہستہ تیار کئے جارہے ہیں- اس میں 1000-CASA پروجیکٹ شامل ہے جس کے ذریعے وسط ایشیاء کی فاضل بجلی جنوبی ایشیاء پہنچائی جائیگی؛ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ہے جو فی الحال التوا میں ہے؛ اسی طرح ترکمنستان-افغانستان-پاکستان-ہندوستان گیس پائپ لائن منصوبہ ہے جو دم توڑ چکا ہے؛ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات ہورہے تھے جس کے مطابق پاکستان 500 میگا واٹ بجلی درآمد کرنے والا تھا؛ نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ ہندوستان کے توانائی کے معاہدے ہیں؛ اور ہندوستان اس کوشش میں ہے کہ میزو رام کے راستہ مینمار تک شاہراہ تعمیر کیجائے-

پاکستان-چین کا معاشی راہداری کا منصوبہ جو علاقائی تعاون کے منصوبوں میں سے ایک ہے عمل درآمد کے مرحلے میں ہے- ہندوستان ایران کے تعاون سے چاہ بہار میں ایک بندرگاہ تعمیر کرے گا جو ہرمز کے دہانے پر گوادر کے جنوب میں 100 میل سے بھی کم فاصلے پر ہوگی- اس کا مقصد بھی پاکستان سے گزرے بغیر وسط ایشیاء تک رسائی حاصل کرنا ہے ----اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد گوادر کو ترقی دینے کی چین کی کوششوں کا توڑ بھی فراہم کرنا ہے- علاقائی تعاون کے ڈھانچے کے تحت ترجیحی بنیاد پر آزاد تجارت کا منصوبہ بنایا جارہا ہے جس کے مطابق ہندوستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ معاہدے کررہا ہے اور جاپان کے ساتھ بھی معاشی پارٹنرشپ کا معاہدہ شامل ہے-

حقیقت تو یہ ہے کہ علاقائی تعاون کے تمام ڈھانچوں کے اندر، سوائے چین-پاکستان معاشی راہداری کے دو طرفہ معاہدے کو چھوڑ کر، پاکستان یا تو بالکل کنارے پر ہے یا اسکو بالکل نظرانداز کردیا گیا ہے- اگر کہیں اس کا وجود نظر بھی آتا ہے تو یا تو ٹرانزٹ کے راستہ میں یا بجلی کے جزوی خریدار کے طور پر کیونکہ سلامتی کے خطرات درپیش ہیں-

بدقسمتی سے، علاقائی تعاون کے عظیم تر امکانات کے سلسلے میں پاکستان کو مزید انتظار کرنا ہوگا- ہندوستان اور افغانستان میں منعقد ہو نے والے انتخابات کے متوقع نتائج کے پیش نظر اس بات کا اندیشہ ہے کہ مستقبل قریب میں علاقائی تعاون کی فضا میں مزید کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ : سیدہ صالحہ

ثاقب شیرانی

لکھاری سابق حکومتی مشیر ہیں اور اس وقت مائیکرواکنامک کنسلٹنسی کے سربراہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024