جبری تبدیلی مذہب کی اصل دہشت
پلوں کے بنانے اور حریفوں کو نیچا دکھانے کے چکروں میں پھنسی موجودہ حکومت، اپنے سے پچھلوں کی طرح، پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پر توجہ دینے میں ناکام رہی ہے- اور اگر مذہب کی جبری تبدیلی سے کوئی کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ کمی بھی اقلیتی بچیوں کی جبری شادیوں نے پوری کر دی ہے جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے-
موومنٹ فار سالڈیریٹی اینڈ پیس ان پاکستان (MOVEMENT FOR SOLIDARITY & PEACE IN PAKISTAN) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال اقلیتی مذہبوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً ایک ہزار عورتوں کو زبردستی مذہب بدل کر مسلمان مردوں کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے- رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان میں سات سو عیسائی ہوتی ہیں اور تین سو ہندو- حکومت پاکستان کو اس حوالے سے کہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان میں عیسائی آبادی کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں رہتا جہاں زیادہ تر ایسے واقعات ہو رہے ہیں-
آخر وہ کیا ہے جو مردوں کے ایسے گروپوں کو چلا رہی ہے جو مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والی بے بس عورتوں کو اغوا کر کے زبردستی ان کا مذہب تبدیل کروا کر ان کی مرضی کے خلاف ان کی شادیاں کروا رہے ہیں؟
محبت تو یہ ہو نہیں سکتی اور اسے بین المذاہب ہم آہنگی بڑھانے کی کوئی کوشش تو ہر گز نہیں کہا جا سکتا- میں نہیں سمجھتی کہ پاکستان میں اکیلی مسلمان عورتوں کی کوئی کمی ہے تو پھر ان لڑکیوں پر یہ بربریت کیوں؟ کیا کوئی اغوا کار واقعی یہ سمجھتا ہے کہ کسی اقلیتی مذہب کی عورت کا مذہب تبدیل کروا کر اور جبری شادی کرنے یا کروانے سے وہ خدا کے اچھے بندوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا؟ کیا اسے احساس بھی ہے کہ وہ نہ صرف اقلیتوں کے حقوق غصب کر رہا ہے بلکہ عورتوں کے حقوق بھی؟
بدقسمتی سے، جیسا کہ رپورٹ میں بھی نشاندہی کی گئی ہے، اقلیتی کمیونٹی کے لئے بنیادی مسئلہ تعلیم کی کمی ہے- تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی طرح رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہندو اور عیسائی پیچھے رہ گئے اور بقیہ آگے بڑھ جاتے ہیں- سیاسی جماعتوں ور حکومت میں ناکافی نمائندگی نے بھی ان کے حقوق کی حفاظت کی کوششوں کو متاثر کیا-
رپورٹ میں لکھا ہے کہ "عیسائی گروپ دعویٰ کرتے ہیں کہ امتیازی قوانین اور غیر مسلموں کو برابر کے شہری نہ ماننے سے سخت گیر عسکریت پسندوں کو عیسائیوں کو نشانہ بنانے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے- گوجرہ اور پشاور جیسے پیش آنے واقعات اب بھی ان کمیونٹیوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں جو یہ امید چھوڑتے جا رہی ہیں کہ حالات تبدیل ہوں گے-
دہشت گردوں سے حفاظت کے لئے زیادہ بہتر کوششوں کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن اپنے گھروں میں رہنے والی عورتوں کی حفاظت اتنا مشکل کام بھی نہیں- ذرا سوچیں کیسا لگتا ہو گا کہ آپ کو مسلسل اسی خوف میں رہنا پڑے کہ کہیں کوئی بھٹکا ہوا شخص آپ کو اغوا نہ کر لے جو یہ سمجھتا ہو کہ دوسرے مذہب کی عورت کو اغوا کر کے، اس کا مذہب زبردستی بدلوا کر اس سے شادی کرنے سے، اسے آخرت میں نوازا جائے گا-
اگر یہ مذہبی بہکاوا نہیں تو سادہ الفاظ میں یہ صرف طاقت کا ناجائز استعمال ہے- یہ معلوم ہونا کہ آپ کسی کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں اور کوئی آپ کو نہیں پکڑے گا، بہت سے مردوں کو پاگل کر دینے کے لئے کافی ہوتا ہے- اگر کبھی ایسی لڑکی کی خاندان والے رپورٹ کراتے بھی ہیں تب بھی پولیس شاذونادر ہی اس بارے میں کچھ کرتی ہے- اور اگر کیس عدالت میں بھی چلا جائے تو ایک عورت جو اپنے اغوا کار کے ساتھ رہ رہی ہوتی ہے، اتنی سہمی ہوتی ہے کہ وہ نہیں اقرار کر پاتی کہ اسے زبردستی اغوا یا جبری شادی کی یا کروائی گئی تھی-
لہٰذا ہمارا قانونی نظام ہر روز اقلیتوں کو مایوس کر رہا ہے- رپورٹ میں حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ مناسب قوانین کے نفاز کو یقینی بنائے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اقدامات کرے-
تاہم اس سے پہلے کہ حفاظت فراہم کی جائے اور قانون کو نافذ کیا جائے یہ بہتر ہو گا کہ ان گروپوں اور افراد کی تفتیش کر لی جائے جو دوسروں کے برین واش کر کے انہیں یہ یقین دلوا رہے ہیں کہ ایسے کام کرنے میں کچھ غلط نہیں-
اگر پولیس بھی ایسے تھوڑے ہی سے کیسوں میں مجرموں کو پکڑنا شروع کر دے تو اس سے ہو گا یہ کہ کوئی، عورتوں کو اس اذیت سے گزارنے سے پہلے کم از کم دو بار سوچے گا- تاہم جب تک ایسا نہیں ہوتا، ایسے جنونی اور وحشی مرد، اپنے تباہ کن طریقوں سے اس ملک کے تانے بانے کی تباہی جاری رکھیں گے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
تبصرے (2) بند ہیں