منتخب خودکشی
"چیف شاید ہی کبھی اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتا ہے"- مجھے واضح طور پر جنرل جہانگیر کرامت کے یہ الفاظ یاد ہیں جو بہت سالوں پہلے انہوں نے مجھ سے اس وقت ٹیلی فون پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد کہے تھے-
میرا ان سے سوال تھا کہ 'قومی سلامتی کونسل' بنانے کی جو تجویز انہوں نے دی تھی آیا وہ ان کی ذاتی تھی یا وہ فوج کے وسیع تر خیالات کی ترجمانی کر رہے تھے- دفاعی تربیتی ادارے میں پیش کی جانے والی اس تجویز سے اس وقت کے وزیر اعظم، نواز شریف ناراض ہو گئے تھے اور ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا-
ان دنوں میں بی بی سی میں کام کر رہا تھا جسے نہایت جوشیلے انداز میں مشاہد حسین بتا رہے تھے کہ آج کے دن یہ واضح ہو گیا ہے کہ ملک کا حقیقی حکمران کون ہے- ان کا مطلب تھا کہ جنرل کرامت کو برطرف کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب جنرل کرامت اس بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا بلکہ مزید تنازعات سے بچنے کے لئے وہ خود سبکدوش ہوئے ہیں-
اس کے بعد، اس وقت کے سیکرٹری دفاع، جنرل (ر) چوہدری افتخار علی جو کہ رکن کابینہ، چوہدری نثار علی کے بھائی بھی ہیں، کی سفارش کی روشنی میں نواز شریف نے خود جنرل کرامت کا جاننشیں چنا-
اس زمانے میں اندر کی بات جاننے والوں کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ دہلی میں پیدا ہونے والا سابق کمانڈو، یہاں کی "مٹی کا بیٹا" نہیں لہٰذا ادارے میں اسے وہ حمایت حاصل نہیں ہو سکے گی جو کہ دوسرے حاصل کر سکتے ہیں-
اس سب کا سب سے واضح نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ وزیر اعظم کے احسان تلے دب جائیں گے اور کوئی غلطی کرنے سے گھبرائیں گے- تاہم کارگل میں ناکامی کے بعد جنرل مشرف نے آنکھیں دکھانا شروع کیں تو وزیر اعظم نے انہیں برطرف کر دیا- اس کے بعد والے واقعات تو خیر ہمیں یاد ہی ہیں-
اس تناظر میں جنرل راحیل شریف کا اپنے ادارے کے "وقار" کے بچاؤ کے عزم کا بیان خاصی معنی خیز ہے- لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ یقین سے کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا- لیکن یہ بہت واضح ہے کہ فوج میں بے چینی ہے-
جنرل مشرف کے خلاف چلنے والے مقدمے کو "سلیکٹو" SELECTIVE اس بنا پر تعبیر کیا جا رہا ہے کہ تین نومبر، 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے صرف وہی کٹہرے میں کھڑے سنگین غداری کے چارجز کا سامنا کر رہے ہیں- میں کوئی وکیل نہیں لیکن اس پورے عمل کے سلیکٹو ہونے کے حوالے سے ممتاز قانونی ماہرین بابر ستار اور عاصمہ جہانگیر، اس کے حق اور مخالفت میں بھرپور دلائل دیتے آئے ہیں-
بابر ستار جہاں بہترین ساکھ کے حامل ہیں تو عاصمہ جہانگیر بھی کسی سے کم نہیں- عاصمہ جس کے لئے ڈٹی رہیں اور نمائیندگی کرتی رہیں، جنرل مشرف اس سے کتنی نفرت (اسے بیان کرنے کے لئے دوسرا لفظ نہیں) کرتے تھے وہ بھی سب کے علم میں ہے- اس کے باوجود انہی کی جانب سے جنرل مشرف کے خلاف جس طریقے سے مقدمہ چلایا جا رہا ہے سوال اٹھانا، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس پر اس سے زیادہ توجہ دی جائے جو اب تک اسے دی جاتی رہی ہے-
لیکن پھر بھی صرف نواز شریف کی حکومت پر سلیکٹو ہونے کا الزام لگانا بھی ناانصافی ہو گا کیونکہ یہاں تو ہر وہ ادارہ اور فرد سلیکٹو ہے جس کا ہماری قوم کے بارے میں فیصلے کرنے میں کوئی بھی کردار ہے- یہاں مجھے چند مثالیں پیش کرنے کی اجازت دیں-
سب سے پہلے اس ادارے کی بات کرتے ہیں جو اپنے چیف کے ساتھ 'سلیکٹو' انصاف کے سلوک پر ناراض ہے- ہو سکتا ہے کہ اس دلیل میں وزن ہو لیکن کیا جس خرابے میں آج ہم موجود ہیں اس کے حوالے سے اس ادارے نے اپنے کردار کے بارے میں کبھی کسی ردعمل کا اظہار کیا-
تین دہائیوں تک فوج براہ راست معاملات کی انچارج رہی جس کے دوران ایک طرف تو ہر ممکنہ تباہی کے ذمہ داروں سے کسی نے نہیں پوچھا تو دوسری طرف سویلینز کو کردہ اور ناکردہ جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا- آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں، وزراء اعظم کو زبردستی گھر بھیجا گیا، انہیں خود ساختہ الزامات میں قید رکھا گیا حتیٰ کہ پھانسی بھی چڑھایا گیا-
سرحدوں کے دفاع کے حوالے سے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو اس سے بھی کوئی اعتماد نہیں ملتا- اور پھر خود ساختہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا پہلو تو اتنا بھیانک ہے کہ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ ملک شاید کبھی اس کے نتائج سے سنبھل بھی پائے گا بھی یا نہیں-
بیان کی جانی والی پالیسی میں موجود طالبان میں اچھوں اور بروں کی نشاندہی کی الجھن اور ضرب قوت کے طور پر جنونی پیروکاروں پر انحصار کی وجہ سے ادارے اور معاشرے نے مجموعی طور پر خون کی صورت میں قیمت چکائی ہے اور یہ یقیناً بہت بھاری قیمت ہے-
مگر کیا ادارہ عسکریت پسندوں کے حوالے سے اپنی چنی ہوئی پالیسی ترک کرنے کو تیار ہے؟ جس تیزی سے مذہبی جنونیوں کو سندھ اور بلوچستان میں وفاق پرستوں کے گڑھ مانے جانے والے علاقوں میں متعارف کرایا جا رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا تو نہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنونیوں سے اشتراک ختم ہونے والا نہیں-
تاہم کوئی یہ دلیل بھی دے سکتا ہے کہ اگر چوہدری افتخار کا خود عہدے سے سبکدوش ہونے سے 'انکار' عدلیہ کے دامن پر سالوں سال سے لگے بے شمار داغ دھو سکتا ہے، جسٹس منیر سے لے کر انوارالحق تک، ارشاد حسن خان سے لے کر خود چوہدری افتخار تک، تو جنرل مشرف کو اپنے تین نومبر کے اقدامات پر معاف کیوں نہیں کیا جا سکتا جن کی وجہ سے بلآخر اپوزیشن پارٹیوں، جیسا کہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا-
یقیناً میڈیا بھی کسی دوسرے ادارے کی طرح سلیکٹو ہونے کا قصوروار ہے- شرم سے بھری اس کی داستانوں کی مکمل تفصیل پیش کرنے کا یہ موقع نہیں لیکن یاد کریں کہ کس جوش و خروش سے اس نے 'میموگیٹ' کی پیپلز پارٹی کی منتخب جمہوری حکومت کیلئے خطرے کے طور پر کوریج کی تھی جبکہ دوسری جانب آج یہ کس طرح جنرل شریف کے بیان پر ناراض ہے-
پراثر الیکٹرانک میڈیا پر غالب، قدامت پسند عناصر خاص طور پر ایک دم سے جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ بن گئے ہیں جس کا بظاہر مقصد یا تو نواز شریف حکومت یا پھر ان مذہبی انتہا پسندوں، جن سے حکومت مذاکرات کر رہی ہے، کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ عام تاثر یہ ہے کہ فوج اس سب کی مخالف ہے-
سب سے بڑی ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مستحکم اور قائم اداروں کے مابین یہ "سلیکٹو" لڑائی، 'آئین اور قانون' کے مقدس ناموں پر لڑی جا رہی ہے جس کا فاتح صرف ایک ہی ہو گا، تحریک طالبان پاکستان- امید کرنی چاہئے کہ وہ دن جلد آئے جب ہمیں یہ احساس ہو جائے کہ اس سے ہمار وجود کو سنگین خطرات لاحق ہیں-
لکھاری ڈان کے سابقہ ایڈیٹر ہیں-
ترجمہ: شعیب بن جمیل