• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

... جاگتے رہنا

شائع April 11, 2014
کیا واقعی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم جاگتے رہیں؟ اگر ہم نے ہی جاگتے رہنا ہے تو پھر وہ کس چیز کے چوکیدار ہیں؟
کیا واقعی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم جاگتے رہیں؟ اگر ہم نے ہی جاگتے رہنا ہے تو پھر وہ کس چیز کے چوکیدار ہیں؟

میں جس شہر میں رہتا ہوں وہ ایسا کوئی شہر بھی نہیں لیکن یہاں بھی اب راتیں جاگتی ہیں اور سورج اکثر دیر سے د فتر جاتا ہے لیکن میرا بچپن جس قصبے میں گزرا ہے اس میں فطرت کے دھرے اور زندگی کے پہیے میں مطابقت کچھ زیادہ تھی۔

سردی کی جلدی آنے اور دیر تک رہنے والی راتوں میں بستر پر لیٹنے اور سونے کے بیچ جو آوازیں سننا میری یاداشت کا حصہ ہے ان میں دو سیٹیوں کی آوازیں بہت واضح ہوا کرتی تھیں۔ ان سیٹیوں میں سے ایک کی ہمرکاب ریل گاڑی کی گڑگڑاہٹ ہوتی تھی جو چنیوٹ کے اونگھتے سٹیشن کو چونکاتی تیزی سے گزر جاتی تھی اور دوسری سیٹی کے ساتھ جاگتے رہنا کی صدا جو میری آنکھیں مندنے سے پہلے لاٹھی کی ٹھک ٹھک کے ساتھ گلی میں بار بار گونجتی تھی۔

نیندیں کھو جانے کی عمر سے بہت پہلے بستر پر لیٹے 'جاگتے رہنا' کی صدا سن کر میرے دماغ میں سوالوں کی ایک ریل گاڑی چل پڑتی تھی۔ ایک سوال، اس سے بندھا دوسرا سوال، اس سے جڑا تیسرا سوال...

چوکیدار 'جاگتے رہنا' کی صدا ہی کیوں لگاتے ہیں؟ کیا واقعی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم جاگتے رہیں؟ اگر ہم نے ہی جاگتے رہنا ہے توپھر وہ کس چیز کے چوکیدار ہیں؟ اگر جاگتے رہنا کہنے سے ان کا مقصد کچھ اور ہے توچوکیدار وہ 'کچھ اور' کہتے کیوں نہیں؟ سوالات ریل کے ڈبوں کی طرح دماغ کے پلیٹ فارم پر کھٹا کھٹ گزرتے رہتے یہاں تک کہ میں اپنے چھوٹے سے قصبے کے سٹیشن کی طرح اونگھتے اونگھتے سو جاتا۔

لاٹھی کی ٹھک ٹھک کے ساتھ 'جاگتے رہنا' کی صدا لگاتا اپنے محلے کا چوکیدار اور اس کی صدا سے جڑے سارے سوال بہت عرصے بعد دوبارہ اس و قت یاد آئے جب میں نے یہ خبر پڑھی کی خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں ایک قانون پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد تجارتی عمارتوں، سینما گھروں، بازاروں اور ان جیسے دیگر عوامی مقامات کو خطرنات قرار دے کر لوگوں کو ان مقامات پر خود اپنی حفاظت کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔

لوگوں کی حفاظت کی ذمہ داری کا بوجھ ریاست کے کندھوں سے لوگوں کے کندھوں پر منتقل کرتے ہوئے ریاست نے واک تھرو گیٹ، ٹی وی کیمرے ، اور سکیورٹی الارم لگانے جیسے اقدامات گنوانے کی دریا دلی بھی دکھائی ہے جن کی مدد سے خطرات سے بچا جا سکتا ہے۔ میں نے جب سے یہ خبر پڑھی ہے میرے کانوں میں 'جاگتے رہنا' کی صدا گونج رہی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر عوام اپنے گرد و پیش پر نظر رکھیں تو دہشت گردی اور دوسری مجرمانہ سرگرمیوں کو بروقت روکا جا سکتا ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست کے شہریوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو ایسی کسی بھی مجرمانہ سرگرمی کی ذمہ داری سے بری نہیں کیا جا سکتا جس میں شہریوں کی جان و مال کا زیاں ہو اور حکومت اس کے ذمہ داروں کو سزا دلوانے میں ناکام رہے۔

ریاست کی طاقت جن کاموں میں استعمال ہوتی ہے انہیں عام طور پر لوگوں کی فلاح اور انہیں ڈسپلن کرنے کے دو بڑے عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے ریاست کے کردار میں جو تبدیلی آئی ہے اس میں نمایاں ترین رجحان ریاست کی ڈسپلن کرنے کی طاقت میں اضافے اور فلاح کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کا رجحان ہے۔

عوامی فلاح سے متعلق ریاست کے تمام فرائض کی ذمہ داری آہستہ آہستہ عوام کے کندھوں پر منتقل کی جا رہی ہے۔ ہمارے یہاں بھی تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کے شعبوں سے تو ریاست نے ہاتھ کھینچا ہی ہے اب امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو بھی ان کی اپنی ذمہ داری قرار دیا جا رہا ہے!

اس تبدیلی کے بیچ صرف ایک چیز ایسی ہے جس کی حفاظت کا ذمہ ہماری ریاست بھرپور طور پر لینے کو تیار اور جس کی حفاظت کے لیے وہ ہر دم فکر مند ہے۔ وہ واحد خوش نصیب چیز بیرونی سرمایہ ہے۔

ریاست کے اپنے کردار کے ساتھ تبدیل ہوتے بیانیے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امن و امان کی ضرورت بھی ریاست کو اب صرف اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ بیرونی سرمایہ اس کے بنا ملک میں نہیں لایا جا سکتا۔ امن و امان کے بنا اگر بیرونی سرمایے کو لانا ممکن ہوتا تو شاید ریاست امن و امان کو بھی غیر ضروری قرار دے کر اپنے فرائض کی فہرست سے خارج کر چکی ہوتی۔

نتیجہ یہ کہ لوگوں کے ٹیکس سے تیار کی جانے والی ریاستی قوت لوگوں کی بجائے سرمایے اور سرمایہ داروں کی حفاظت پر استعمال ہو رہی ہے اور لوگوں کو 'جاگتے رہنا' کے مشورے کے سوا ریاست کچھ دینے کو تیار نہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب لوگ جنگ بندی اور مذاکرات کے باوجود ہونے والے بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں سے خوفزدہ ہیں ریاست کی طرف سے ان کی جان و مال کی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھانے کا تاثر دیے جانے کے برعکس یہ احساس دلانا زیادہ ضروری ہے کہ ان مشکل حالات میں جو ریاست کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں ریاست نا صرف اپنی پوری قوت سے لوگوں کی حفاظت کے لیے کھڑی ہے بلکہ ان پالیسیوں کو بھی تبدیل کر رہی ہے جو ان حالات کو پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ ان حالات میں ایسی قانون سازی اس پیغام کے سوا کچھ نہیں کہ؛

جاگتے رہنا! میرے پے نا رہنا۔۔۔

سلمان حیدر

شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024