انصاف یا خام خیالی؟
اکتیس مارچ کو خصوصی عدالت نے ریٹائرڈ آرمی چیف پر فرد جرم عائد کر دی جس کے بعد ہمارے جہادی میڈیا میں مبارک سلامت کا شور مچا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی آرمی چیف پر ملک کی اعلیٰ عدالت میں آئین توڑنے کی فرد جرم لگائی گئی ہو۔
جہادی اینکرز و دانشور اور مسلم لیگ نواز کے رہنما بھنگڑا ڈال رہے ہیں کہ اب کوئی آرمی چیف سیاسی عمل کو ڈی ریل نہیں کر سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی فوج کو سیاست میں مداخلت سے روک دیا گیا ہے؟
پاک فوج جو پچھلے پچاس سالوں سے کسی نہ کسی موقع پر جمہوری عمل سبوتاژ کرتی چلی آرہی ہے، کیا اب ایسا کچھ دہرایا نہیں جائے گا؟
آخر جنرل مشرف نے ایسا کون سا جرم کیا ہے جو جنرل یحییٰ یا جنرل ضیاء اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے نہیں کیا تھا؟
آخر جنرل مشرف کو ہی کیوں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے؟ جب کہ جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے اور اس کا ساتھ دینے والے فوجی افسر اور عدالت عظمیٰ کے جج مستثنیٰ کیوں ہیں؟
فوج کے کئی سابق جرنیل جنہوں نے ماضی میں جمہوری عمل میں رکاوٹیں کھڑی کیں یا اسے سبوتاژ کیا، آج بھی میڈیا پر ماہرانہ رائے دے رہے ہوتے ہیں، ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا؟
ایک وقت تھا کہ پاکستانی عوام کے لیے پاک فوج انتہائی مقدس گائے تھی اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا مطلب وطن سے غداری سمجھا جاتا تھا مگر بھلا ہو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کہ اب حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ پاک فوج کیا زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں سے متعلق بہت سے حقائق سامنے آجاتے ہیں۔ ظاہر ہے پھر ان پر تنقید بھی ہوگی اور پھر اسے برداشت بھی کرنا پڑے گا۔
میڈیا میں پاک فوج پر تنقید کا آغاز کارگل کے محاذ پر ناکامی کے بعد شروع ہوا۔ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے فوج کی کارگردگی پر سوال اٹھانے شروع کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی فوج کے بھاری بھرکم اخراجات پر بھی بحث شروع ہوگئی۔ پاک فوج کی کرپشن کے قصے میں آہستہ آہستہ میڈیا میں عام ہونے شروع ہو گئے۔
کارگل کے محاذ پر ناکامی کے بعد ریٹائرڈ جرنیلوں نے ہی بتایا کہ فوج نے جب بھی جارحیت کی اسے منہ کی کھانی پڑی۔ چاہے وہ 1948 میں کشمیر میں قبائلیوں کے ذریعے جارحیت ہو یا 1965 میں آپریشن جبرالٹر، 1971 میں بنگلہ دیش میں قتل وغارت ہو یا کارگل پر جارحیت، عوام کے وسائل پر پلنے والی فوج کی کارگردگی پاکستانی عوام کے لئے خوشحالی کی بجائے غربت کا باعث ہی بنی۔
یاد رہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا اور ان کا خیال تھا کہ شاید اب فوج سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔
فوج نے نہ صرف اپنی شرائط پر بے نظیر بھٹو کو اقتدار سونپا بلکہ ان کے خلاف سازشیں بھی جاری رکھیں جو بالاخر ان کے اقتدار سے بے دخلی کا سبب بنیں۔
نوے کی دہائی میں آئی ایس آئی نے بے نظیر کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے اس وقت کی اپوزیشن کے ارکان میں قومی خزانے سے کروڑوں روپے تقسیم کیے جن میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی سرفہرست تھیں۔ چونکہ اس عمل میں پیپلز پارٹی ملوث نہیں تھی اس لیے عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے نے اس کو کرپشن تسلیم ہی نہ کیا۔
ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے پاک فوج کی کرپشن کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس کی پہلے تو سماعت ہی نہ کی جاتی مگر جب عوام کا پریشر بڑھا تو سابقہ چیف جسٹس نے جان چھڑانے کے لیے گول مول سا فیصلہ سنا دیا جس کے مطابق ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ بہرحال، معاملے کو اب داخل دفتر ہی سمجھنا چاہیے، لیکن، دوسری طرف، سوئس کیس کا مسئلہ زندہ رہے گا!
پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جرنیلوں نے نہایت بے رحمی اور سفاکی سے حکومت کی ہے۔ چاہے وہ جنرل ایوب ہوں یا جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء ہوں یا جنرل مشرف سبھی نے اپنے مخالفین کے ساتھ نہایت بے دردی سے سلوک کیا چاہے وہ بھٹو ہوں یا اکبر بگٹی۔
جنرل مشرف نے اکبر بگٹی کا اعلانیہ قتل کیا تھا۔ یہ کوئی جنرل مشرف کا ذاتی اقدام نہیں تھا بلکہ ایک پورے ادارے کا کام تھا۔ جنرل مشرف سے پہلے بھی پاک فوج بلوچوں پر ظلم ڈھاتی چلی آئی ہے اور ان کے بعد بھی حالات بالکل نہیں بدلے۔ آج بھی بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ویسے ہی مل رہی ہیں۔
جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کو دیکھا جائے تو فوج نے بندوق کے زور پر اپنی پالیسیوں کو منوایا، چاہے وہ طالبان کا ایشو ہو یا خارجہ پالیسی یا بلوچستان میں قتل عام۔ لہذا سوال یہی ہے کہ آخر جنرل مشرف کو ہی کیوں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے جبکہ ان کے اقتدار کو جواز بخشنے والے آج پاکستانی قوم کے ہیرو بنے ہوئے ہیں؟
جنرل مشرف کے ستارے اس وقت گردش میں آنے شروع ہوئے جب انہوں نے ایک طرف انتہاپسندوں کے خلاف اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور دوسری طرف پاکستان-ہندوستان تعلقات کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب واضح پیش قدمی کی۔
لال مسجد میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرکے جنرل مشرف نے کھلم کھلا طالبان کو چیلنج کر دیا اوراس آپریشن کے جواب میں ملک میں خود کش حملوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک محتاط انداز کے مطابق اب تک بیس ہزار سے زائد سویلین اور فوجی اس جنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ لال مسجد کے بعد فوج میں طالبان کے حامی اور انتہا پسند عناصر، جنرل مشرف کے خلاف ہو گئے اور انہیں سبق سکھانے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے اور حملے کرنے والے کوئی اور نہیں فوج کے اپنے ہی سپاہی تھے!
لال مسجد میں آپریشن کے وقت آئی ایس آئی اپنے بندے مدرسے سے باہر بھیج رہی تھی جہاں ایم آئی انہیں گرفتار کر رہی تھی۔ آج کل مسنگ پرسنز کا جو کیس بہت زیادہ میڈیا کی توجہ حاصل کررہا ہے، بنیاد ی طور پر یہ بھی دو ایجنسیوں کی جنگ ہی ہے۔
آئی ایس آئی کے تیار کردہ عسکریت پسند ایم آئی کی حراست میں ہیں اور سپریم کورٹ کے مسنگ پرسنز کو عدالت میں طلب کرنے کی "بڑھکیں" مارنے کی وجہ بھی یہی طاقتور ادارہ ہے۔
یاد رہے کہ پچھلے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی طاقت کا باعث بھی فوج کے انتہا پسند عناصر تھے ورنہ ایک ایسا شخص جس کا پورا کیریئر ہی موقع پرستی کا مرہون منت ہو وہ ایک جنرل کے سامنے ڈٹ کر اپنا کیرئیر تباہ نہیں کر سکتا تھا اور بعد کے واقعات سے یہی ثابت ہوا۔ سابق چیف جسٹس نے پچھلی حکومت کو ہر ممکن طریقے سے ناکام بنانے کی کوشش کی۔
پاکستان میں اقتدار پر اول تو فوج کا قبضہ ہی رہا ہے مگر جب بھی سیاسی عمل بحال ہوا ہے تو پاک فوج نے اس میں کسی نہ کسی طرح رکاوٹ ڈالی اور کوشش کی کہ وہ آزادی سے کام نہ کر سکیں۔
خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی بلکہ معیشت تک فوج کے قبضے میں ہے اور کوئی سویلین حکومت بھی اس سے روگردانی نہیں کر سکتی۔ غیر ملکی امداد کا بڑا حصہ فوج کے اللوں تللوں پر ضائع ہو جاتا ہے۔
اکتوبر 2009 میں جب امریکہ نے سویلین حکومت کو کیری لوگر بل کے تحت امداد دینے کی کوشش کی تو پاک فوج نے اس کی سخت مخالفت کی اور اسے پاکستان کی سالمیت کے خلاف قراردے دیا۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ پاک فوج شاید دنیا کی واحد فوج ہو جو ایک بہت بڑے کاروبار کی مالک ہے۔ ریاست کی زمین کو ریاست کے وسائل سے ڈویلپ کرکے اور پھر اسکی کروڑوں روپے میں فروخت کرپشن نہیں تو کیا ہے؟ اس کی تفصیلات عائشہ صدیقہ کی کتاب "فوجی کاروبار" Military Incorporated سے مل سکتی ہیں جس میں انہوں نے واضح طور پر پاک فوج کے کاروبار اور اس کی کرپشن کے متعلق نہایت تفصیل سے لکھا گیا ہے۔
جنرل مشرف پر فرد جرم عائد کرنے اور ان کا میڈیا ٹرائل ہونے سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پاکستان میں اب فوج کمزور ہو رہی ہے اور اس کا عمل دخل ختم ہورہا ہے۔ یہ تاثر قطعاً درست نہیں۔
پیپلز پارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دور کو دیکھا جائے یا مسلم لیگ نواز کے جاری ایک سال کو، بنیاد ی طور پر فوج ہی اپنی پالیسی ڈکٹیٹ کروا رہی ہے۔ طالبان کا ایشو ہو یا پاک ہند تعلقات، سویلین حکومت کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جہاں تک طالبان کے خلاف آپریشن کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (نواز) ان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ پنجاب میں تمام کالعدم تنظییموں کے نہ صرف دفاتر قائم ہیں بلکہ وہ آزادانہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر لشکر جھنگوی جو ایک لمبے عرصے سے شیعہ کمیونٹی کے قتل عام میں مصروف ہے، اس کے تمام ارکان پنجاب میں کھلے عام گھوم رہے ہیں مگر پنجاب حکومت کسی بھی کاروائی سے گریز کر تی چلی آرہی ہے۔
مسلم لیگ نواز کے اقتدار میں آنے کے بعد عسکریت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ چودہ اگست یا تئیس مارچ کے موقع پر مذہبی اور انتہا پسند تنظیمیں میدان میں نکل آتی ہیں اور انڈیا کے خلاف شدید نعرے بازی اور مذہب کے نام پر زہریلا پراپیگنڈہ کرتی ہیں۔
23 مارچ 2014 کا دن شان و شوکت سے منانے کے لیے پہلی دفعہ پورے پنجاب میں جماعت الدعوۃ نے ایک ہفتہ پہلے ہی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ پورے لاہور میں ہندوستان کے خلاف انتہائی نفرت آمیز پراپیگنڈے پر مشتمل بینر آویزاں کر دیئے گئے۔ لیکن پنجاب حکومت جو پاک-ہند تجارت کی سب سے بڑی حامی ہے ان انتہا پسندوں کے آگے بالکل خاموش رہی۔
ان تمام مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی فوجی ایسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے کیونکہ یہ انتہا پسند جماعتیں اس کے سٹرٹیجک اثاثے ہیں جن کے ذریعے دنیا کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ پہلے افغانستان کے نام نہاد جہاد نے ملک کو میدان جنگ بنایا اور اب مسلم لیگ (نواز) شام میں سعودی عرب کی جنگ لڑنے جارہی ہے۔ آنے والے سالوں میں اس کے مضمرات کا اندازہ ہو گا۔
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ بنیادی طور پر پاکستانی ریاست کا بیانیہ جہادی ہے۔ اس ریاست میں مذہب کا نام لے کر جتنی مرضی قتل و غارت و لوٹ مار کر لی جائے اسے کوئی گزند بھی نہیں پہنچے گی مگر کسی بھی روشن خیال کے لیے ریاست میں کوئی جگہ نہیں.
اگر وہ ریاست کی کھینچی ہوئی ریڈ لائن کراس کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر ریاست کی زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ چاہے وہ بھٹو خاندان ہو یا سلمان تاثیر، باچا خان ہو یا بلوچ قوم پرست۔ جنرل مشرف تو اس کی تازہ مثال ہے۔
محمد شعیب عادل لاہور سے نکلنے والے سیاسی میگزین ماہنامہ نیا زمانہ کے ایڈیٹر ہیں
تبصرے (1) بند ہیں