مکمل اختیار کی جانب پھر رواں
کیا سارے حکمران مکمل اختیار چاہتے ہیں؟ ان میں سے زیادہ تر شاید چاہتے بھی ہوں- تو کیا ان سب کی خواہش پوری ہو جاتی ہے؟
اِس زمانے میں اور آج کی دنیا میں ایسے بہت کم ہیں جو نوازشریف کی طرح خوش قسمت ہیں- لارڈ ایکٹن نے کافی پہلے ایک مشہور قول میں خبردارکیا ہے " اختیار عموماً بگاڑتا ہے اور مکمل اختیار مکمل طور پر بگاڑتا ہے" رچرڈ فیلن ہارورڈ لاء میں ہمارے دستوری قانون (Constitutional Law) کے پروفیسر تھے، کورس کے اختتام پر انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ طاقت کے غلط استعمال کے خلاف قانون کے پاس سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ طاقت کو زیادہ سے زیادہ ہاتھوں میں تقسیم کردیا جائے، طاقت استعمال کرنے والوں کے اختیارات کو ایک نظام کے تحت پابند کردیا جائے اور انکے فیصلوں کو شفاف اور جانچ پڑتال کے تابع کردینا چاہئے
2013 کی نگران حکومت کی من مانی تعیناتیوں اور تبادلوں سے تنگ آکر، خواجہ آصف موجودہ وزیر دفاع اور پی ایم ایل ن کیغالباً سب سے زیادہ معقول آواز، نے سپریم کورٹ میں ایک دعویٰ دائر کیا تھا- سپریم کورٹ نے ان کی درخواست کو منظور کرکے ان تمام تعیناتیوں کو منسوخ کردیا تھا-
لیکن آگے یہ ہدایت بھی تھی- " بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کی خاطر--- ایک کمیشن جس کی سربراہی دو نہایت قابل اورآزاد سونچ کے حامل افراد کر رہے ہوں، جن کی بے مثل دیانت شک سے بالاترہو--- کا قیام وفاقی حکومت کو عمل میں لانا چاہئے جس میں لیاقت کی بنیاد پر منتخب لوگوں پر مشتمل افراد چار سال کی مقررہ مدت کیلئے ہوں- یہ یقینی بنانے کیلئے کہ قانونی اداروں، خود مختار، نیم خودمختاراور نگراں اداروں میں تعیناتیاں کی جائیں،اسی یقین دہانی کے ساتھ یہ تعیناتیاں گورنمنٹ کی عملداری میں جو کارپوریشن اور خودمختار ونیم خودمختار ادارے وغیرہ ہیں ان میں بھی کی جائیں"-
عدالت نے کمیشن کے لائحۂ عمل کا بھی احاطہ کیا- حالانکہ عدالتوں کیلئے یہ بات نامناسب ہے کہ عدالتی اختیارات کے نام پر قانون سازی کریں، پی ایم ایل ن نے کبھی '' خواجہ محمد آصف کے کیس'' کی قانونی نظرثانی کی خواہش نہیں کی بلکہ فیصلہ پراس کی روح کے مطابق عمل کرنے پر اصرار کیا- اس کی تعمیل میں، 22 جولائی 2013ء کو انہوں نے ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا کہ ایک وفاقی کمیشن (Federal Commission for Selection of Heads of Public Sector Organisations) قائم کیا جائے جو پبلک سیکٹر اداروں کے سربراہوں کو منتخب کرنے کا کام کرے- اور ان اٹھاون اداروں کا بھی حوالہ دیا جن کے سربراہوں کی تعیناتی کا کام انتخابی کمیشن (Selection commission) کو کرنا تھا-
جوں جوں اس کے قدم جمتے گئے، اقتدار کے مزے کے ساتھ اور دوسرے خیالات نے بھی کروٹ لی- 13 جنوری 2014ء کو، حکومت نے ایک دوسرا حکم نامہ جاری کیا جس میں ان اداروں کی تعداد میں کمی کرکے 58 سے 23 کردی گئی جو سلیکشن کمیشن کے احاطۂ اختیار میں تھے- یہیں پر بس نہیں کیا، بلکہ حکومت نے 4 مارچ 2014ء کے ایک دوسرے حکم نامے کے ذریعے، دو بے حد اہم کارپوریٹ سیکٹر کی نگرانی کرنے والے اداروں (Securities and Exchange Commission) اور (Competition Commission) کو بھی سلیکشن کمیشن کے دائرۂ اختیار سے خارج کردیا-
ایک اور اہم نگران ادارہ، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینبٹل کونسل کے معاملات پر اپنی بالادستی حاصل کرنے کیلئے، حکومت نے حال ہی میں (PMDC Amendment Ordinance 2014) نافذ کیا ہے- پاکستان میں صحت عامہ کی بدترین صورت حال کے پس منظر میں پی ایم ڈی سی کی کارکردگی کے بارے میں جو بھی کہا جائے کم ہے- لیکن قانونی طور پر نگراں ادارے وفاقی قانون ساز فہرست کے حصہ دوم (Part II of Federal Legislative List) اور کونسل آف کامن انٹریسٹ (Council of Common Interests) کے دائرۂ اختیار کے اندر آتے ہیں جن سے مشاورت کے بغیرپی ایم ڈی سی کی بنیادی ساخت میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ہے-
پی پی پی کی حکومت نے 2009ء میں اسلام آباد میں ایک (Safe City Project) پروجیکٹ شروع کیا تھا- 124.7 ملین ڈالر کا یہ پروجیکٹ بغیر کسی ٹنڈر کے اور (PPRA) کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک چینی کمپنی کے حوالے کردیا تھا اس کو سپریم کورٹ میں چیلینج کردیا گیا جس نے "راجہ مجاہد مظفر کیس" میں 2012ء میں اس معاہدے کو منسوخ قرار دیا اورکہا،"نہ صرف یہ کہ یہ معاہدہ بتاریخ 29 دسمبر 2012ء خلاف قانون اور غیر شفاف ہے اور اگر یہ اپنی مالیت سے بہت زیادہ نہیں ہے تو اس کی قیمت مشکوک ہے"- لیکن پی ایم ایل ن کی حکومت نے اسی (Safe City Project) کو دوبارہ شروع کردیا ہے اور اسی پرانی چینی کمپنی کے حوالے انہیں شرائط پر کردیا گیا ہے- اسی طرح، سپریم کورٹ نے علاقائی توانائی کے جن منصوبوں کو بدعنوانی کے الزام میں منسوخ کردیا تھا جس پر کافی شادیانے بجائے گئے تھے ( جس کیلئے پی پی پی کے وزیراعظم ابھی تک احتسابی عدالتوں کے سامنے پیش ہورہے ہیں) وہ تمام کرائے کے توانائی کے منصوبے (RPP) دوبارہ شروع کئے جارہے ہیں اور ان کو پی ایم ایل ن کی حکومت نے (Short -Term Independent Power Plants) کے نئے نام سے جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے-
پچھلی ڈھائی دہائیوں میں کتنے ہی ایسے فیصلے کئے گئے ہیں جن کے ذریعے عدالتوں اور افسرشاہی کو ایک دوسرے سے بڑی مشکلوں سے علیحدہ کیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ یہ علیحدگی ہمارے آئین کا ایک بنیادی جزو ہے- ملک نے 1996ء میں"الجہاد ٹرسٹ کیس" کے ساتھ اس روش کے اختتام کا خیرمقدم کیا گیا اور اس کے بعد ایک مرتبہ پھر 2009ء میں" آزاد ذہن " ججوں کی بحالی کے موقع پر بھی- اور پھر ہمیں 2014ء میں ان تمام کوششوں کے نتیجے میں کیا ملتا ہے، تقریریں اور تماشے؟- ایک موجودہ سرکاری افسر(DMG) کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے طور پر تعینات کردیاجاتا ہے-
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ افسر کس قسم کی شہرت رکھتا ہے- یہ ایک فرد کی ذات کی بات نہیں ہے یہ ایک غیرمبہم اصول کی بات ہے کہ عدلیہ کی کارکردگی، مالیاتی اور انتظامی طور پر افسر شاہی کے اثر سے پاک ہو، اور ججوں کو تحفظ فراہم کرنے سے زیادہ عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی انصاف کے ایوانوں سے ہو جن میں آزاد فیصلے کرنے کی صلاحیت بغیر کسی بیرونی مداخلت کے ہو-
لیکن یہاں سپریم کورٹ اور حکومت مل کر ایک حکومتی اہلکارکوتعینات کرتے ہیں ایک ایسے اہم عہدے کیلئے جو عدالت اور باقی دنیا کے درمیان واسطے کا کام دیتا ہے ( جس میں حکومت اورباقی دوسرے مقدموں کے فریق ہیں) اور جو اپنے مستقبل کی تعیناتیوں اورترقیوں کیلئے حکومت پر انحصار کرتا ہے-
پی ایم ایل ن کی مکمل اورکلی اختیار کی جانب یہ رغبت ہمیں پرانی 1997-1999 والی ناپسندیدہ اور بدوضع یادوں کی جانب لے جاتی ہے ان منتخب اصولوں پر عمل کے کئی نام ہیں موقع پرستی، اقربا پروری، دوست پروری اور منافقت وغیرہ- قانون اور عمل کے درمیان جو پل ہوتا ہے اسے پاٹنے کے دو طریقے ہیں ایک قانون پر عمل کرکے اور یا جو عمل ہے اس کے مطابق قانون کوبدل کے- اگر ہم اس بات پر متفق ہیں کہ ہم اپنے گھٹیا طور طریقے نہیں بدل سکتے تو ہم قانون کو بدل دیں تاکہ کم از کم اس کا مذاق تو نہ اڑے- آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ہمارا ایماندارانہ اعتراف کہ ہم ایک گلے سڑے لوگ ہیں ہماری عزت نفس نہیں لوٹا دیگا؟
ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری