ہمارے پکوان -- نہاری
اگر آپ کراچی کے رہنے والے ہیں، تو آپ بوتل گلی کے بارے میں جانتے ہوں گے- اپنے بچپن میں، میرا اس گلی میں خاصا آنا جانا تھا کیونکہ ایک آیا کی غلطی کی وجہ سے مجھے بچپن میں کہنی کی تکلیف ہو گئی اور اس کا نتیجے میں کھیل کود کے دوران جہاں میرے بازو کے ساتھ کھینچا تانی ہوئی میری کہنی کا جوڑ ہل جاتا-
جب بھی میرا بازو گڑیا کے بازو کی طرح لٹکا نظر آنے لگتا، ابّو مجھے بوتل گلی میں واقع ایک عام سے گھر میں رہنے والے ایک مہربان پہلوان کے پاس لے جاتے، جو بہت پیار سے آھستہ آھستہ باتیں کرتے اور سہلاتے ہوئے ایک جھٹکا دے کر میری کہنی کا جوڑ اپنی جگہ بٹھا دینے میں ماہر تھے-
پہلوان میرے بازو پر ایک سرخ رنگ کا چپچپا بام ملتے تھے، پھر اسے بڑے بڑے سبز پتوں سے ڈھانپ کر اس پر ململ کی پٹی کر دیتے- یہ ستر کی دہائی تھی- کراچی نسبتاً پرسکون اور شاندار ہوتا تھا- ویک اینڈ یعنی جمعرات کو، میں بوتل گلی میں ایک خوش و خرم چھوٹے سے زخمی جنگجو کی طرح محسوس کر رہی ہوتی- علاقے میں ہونے کی وجہ سے فارغ ہونے کے بعد ابّو اکثر ہمیں آرام باغ کے قریب صابری نہاری لے جاتے اور یہی وہ جگہ اور موقع تھا جب پہلی بار میرا تعارف شاندار نہاری سے ہوا-
نہاری کے ذائقہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کھانے والے کو نوالہ لیتے ہی احساس ہو جاتا ہے کہ کتنی احتیاط، دیکھ بھال سے اس کی تیاری کے لئے اجزاء ڈالے گئے ہیں- لہٰذا یہ دعویٰ کہ نہاری حکمت کے مطالعے سے اخذ کی گئی ہے، حیران کن نہیں لگتا اور ویسے بھی اس کا استعمال سانس کی نالیوں کی سوزش، عام نزلے اور دہلی اور لکھنؤ کی سردیوں میں بخار سے بچاؤ کے کام آتا ہے- اس کی مقبولیت اس وجہ سے بھی بڑھی کہ کھانے کے بعد، کڑاکے کی سردیوں میں جسم گرم رہتا ہے-
ابتدائی دنوں میں پرتکلف نہاری، تقسیم سے پہلے امیر مسلم نوابوں کو ناشتے میں پیش کی جاتی تھی- لیکن اونچے طبقے کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ گاڑھا غذائیت سے بھرپور سالن، جسے بونگ (گائے کی پنڈلی کا گوشت) اور ہڈیوں کے گودے کے ساتھ آھستہ آھستہ کمال پکایا جاتا ہے، ایک وقت میں سیر اور جی بھر کر کھانے کے لئے بہترین ہے، تو انہوں نے اپنے مزدوروں کو اسے دینا شروع کر دیا جو ایک وقت نہاری کھا کر، ایک کام میں جٹ جاتے، چاہے وہ ایک حویلی ہو، ایک محل، ایک سڑک، یا ایک ریلوے اسٹیشن- یہ مزدور ہندوستان کی تعمیر میں مصروف تھے-
لفظ نہاری، عربی لفظ نہار سے نکلا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں صبح- لہٰذا نہاری نام سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اسے صبح کے ناشتے میں استعمال کیا جاتا تھا- کہتے ہیں کہ نہاری بنانے کی ابتداء، یا تو جامع مسجد دہلی کی پچھلی گلیوں سے ہوئی، جہاں سے زیادہ تر دہلی والوں کا تعلق ہے یا پھر بہت سے لکھنؤ کے دلدادہ سمجھتے ہیں کہ اس کا آغاز اٹھارویں صدی کے آخر میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد، نواب اودھ کے باورچی خانوں سے ہوا-
علامات سے اس بات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ سلطان اور کاروبار سلطنت چلانے والے طاقتور افراد کو احساس تھا کہ اس آھستہ آھستہ پکے ہوئے گوشت اور اس کا سالن کھا لینے کے بعد ایسا خمار چڑھتا ہے کہ فجر اور ظہر کی نمازوں کے دوران ایک قیلولہ لازم ہو جاتا ہے لہٰذا وہ ایسا کرتے بھی تھے- وہ ناشتے میں نہاری کھاتے، خاص طور پر سردیوں میں اور دوبارہ سو جاتے- اور پھر امیروں کے بارے میں یہ سب ہی جانتے ہیں کہ انھیں غریبوں سے کام کروانے کے انوکھے طریقے سوجھتے رہتے ہیں- لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ مزدور طبقے کو جو مختلف تعمیراتی سائٹس پر کام کرتا تھا، یومیہ اجرت کی جگہ، جو انھیں دن بھر کی سخت مشقت کے بعد ملتی تھی، یہ شاندار کھانا ناشتے میں دیا جانے لگا-
گوشت میں موجود پروٹین کی زیادہ مقدار کی وجہ سے آھستہ آھستہ خون میں شکر بڑھتی جاتی جس کے نتیجے میں دن بھر بھوک کا احساس ہی نہیں ہوتا- یہ طریقہ آج بھی رائج ہے- مزدور آج بھی صبح صبح نہاری کھاتے ہیں تا کہ دن بھر وہ کام چلا سکیں جبکہ امیر اسے ویک اینڈ پر ناشتے میں یا کسی پرتکلف عشائیے / رات کے کھانے میں استعمال کرتے ہیں-
تاریخی طور پر نہاری پکانے کے لئے پوری رات درکار ہوتی ہے جس میں چھ سے آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں اور سورج نکلنے کے وقت یہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے- اس کی لذت کا اس وقت تو جواب ہی نہیں جب اسے گائے کی بونگ کے نرم حصوں کی بوٹیوں میں بنایا جائے لیکن آجکل تو چکن اور مٹن نہاری بھی خاصی مقبول ہو گئی ہے-
نہاری میں اب نیا اضافہ مغز اور نلی کا ہے جس سے یہ نہاری کے اسپیشل ایڈیشن بن گئے ہیں- اصل کھانے والے، نہاری کو ان اضافی اجزاء کے ساتھ کھانا، نہاری کی بے حرمتی سمجھتے ہیں-
نہاری تیار کرنے کا طریقہ آج بھی کم و بیش وہی ہے جو کہ ابتدائی دنوں میں تھا- اس زمانے میں، دیگ کا ڈھکن ڈھانکنے کے بعد اس کے کناروں پر آٹے کی لئی لگا دی جاتی تھی تا کہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت برقرار رکھا جا سکے اور بھاپ سے آھستہ آھستہ پکائی بھی ہوتی رہے- گوشت کو ہلکا سا تلنے کے بعد، اس میں خوشبودار مصالحے ڈال کر آھستہ آھستہ گلنے اور ان مصالحوں کی خوشبو اپنے اندر سمو لینے کے لئے چھوڑ دیا جاتا- انتہائی نرمی سے گوشت میں ان مصالحوں کا ذائقہ رچ بس جاتا، جیسے کوئی کسی کو لبھانے کی کے لئے جادو کر رہا ہو-
ایک کہانی جسے میرے شوہر اکثر سنایا کرتے ہیں میری توجہ حاصل کر لی- وہ اسی کی دہائی میں دہلی گئے تھے اور انہوں نے پرانے دہلی کا بھی چکر لگایا تھا جہاں جامع مسجد کے پیچھے نہاری والے نہاری پکاتے ہیں اور اس کی کہانیاں بڑے جوش و خروش سے سنانے کے ساتھ بیچتے ہیں- میرے شوہر کے ایک کزن، جو دہلی کے ہیں، انھیں شہر کے سب سے پرانے نہاری والے کے پاس لے گئے-
وہاں موجود بیرا فوراً آ گیا اور نہاری پیش کرتے ہوئے اس نے ایک فقرہ میں یہ دعویٰ کر ڈالا کہ جناب آپ نہاری نہیں تاریخ کا ذائقہ چکھنے والے ہیں- اس نے بتایا کہ یہ روایت تھی روزانہ نہاری میں سے ایک پیالہ نہاری بچا لی جاتی جسے اگلی صبح، نہاری کی تازہ دیگ میں ڈالا جاتا- اس نے جو دعویٰ کیا اسے ہیڈ کیشئر نے بھی دہرایا کہ یہ روایت کب سے جاری ہے یہ بھی کسی کو نہیں معلوم- مجھے نہ تو اس ریسٹورنٹ کا نام معلوم ہے اور نہ ہی میں اس کہانی کی تصدیق کر سکتی ہوں لیکن کھانوں کے شوقین افراد کے لئے اس کہانی میں زبردست اور تاریخی شان و شوکت ضرور موجود ہے-
اس سب کے بعد، یہ تو فطری تھا کہ میں بھی اس طویل تھکا دینے والے کام میں جٹ جاؤں- پہلے تو میں نے اپنی ممانی سے ان کی نہاری کی ترکیب جاننے کے لئے رجوع کیا تو پتا چلا کہ ہم جس کی تعریف میں قلابے ملتے رہتے ہیں وہ تو اصل میں تیار شدہ پیکجڈ نہاری مصالحے سے بنتی ہے- پھر میرا اگلا پڑاؤ میرے محلے کی ایک بہت اچھی دوست تھیں جو اپنے گھر پر شاندار نہاری بناتی ہیں لیکن وہ اس کی تیاری میں ڈھائی دن لیتی ہیں، جو کہ یقیناً بہت زیادہ وقت لینے والا عمل ہے- تبھی قدرت کی طرف سے انعام کے طور پر میری نظر شاذلی انٹی کی نہاری کی ہاتھ سے لکھی کھانے بنانے کی ترکیبوں والی ایک کتاب پر پڑی جو انہوں نے مجھے میری شادی پر شادی کے تحفے کے طور پر دی تھی- تو جناب یہ حاضر ہے میرے باورچی خانے سے آپ کے باورچی خانے میں!
ترجمہ: شعیب بن جمیل