'داخلی سلامتی پالیسی پر عملدرآمد شروع'
اسلام آباد: وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے داخلی سلامتی پالیسی پر عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے جبکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ریپڈ ریسپانس فورس اور نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کرنے کی منظوری دیدی گئی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت داخلی سلامتی پر اعلٰی سطح کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔
اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام عباسی، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ چیف سیکرٹریز اور آئی جیز شریک ہوئے۔
وزارت داخلہ اور آئی ایس آئی کی جانب سے داخلی سیکورٹی پر اجلاس کو بریفنگ دی گئی۔
عسکری اور صوبائی قیادت سے مشاورت کے بعد اجلاس میں داخلی سیکیورٹی پر عملدرامد کی منظوری دیدی گئی۔
وزیراعظم نے اجلاس میں نیکٹا کے تحت نیشنل انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ، مرکز اور چاروں صوبوں میں تربیت یافتہ عملے پر مشتمل ریپڈ رسپانس فورس کے قیام کی منظوری دیدی۔
وزیراعظم نے چاروں صوبوں میں سخت حفاظتی اقدامات والے جیلوں کے قیام کی منظوری بھی دی۔
اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس ادارے یکجا ہو کر کام کرتے ہوئے صوبے اور مرکزی انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ معلومات کے تبادلے کو یقینی بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں پر قابو پانے کیلئے تحفظ پاکستان آرڈیننس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ چاروں صوبے نئی داخلی سیکورٹی پالیسی پر عملدرآمد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں، صوبوں کو سنگین جرائم کے قابل شواہد ثبوت کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔
وزیراعظم نے چین سے منگوائی گئی بم ناکارہ بنانے والی جدید گاڑیاں بھی صوبوں کے حوالے کیں۔
اس موقع پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اجلاس کو سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی۔
اجلاس کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کرنے کا عزم دوہرایا۔
وزیراعظم نے مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو مذاکرات کی مخالفت کرنے والے گروہوں سے خود نمٹنا چاہیے۔
مذاکرات کے لیے آزاد پُرامن علاقے کا مطالبہ
خیال رہے کہ گزشتہ مہینے مہمند اجنسی میں طالبان کی جانب سے ایف سی کے 23 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل متاثر ہوا تھا۔
اس واقعہ کے بعد پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مشتبہ شدت پسندوں کے متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور ان کارروائیوں میں بہت سے شدت پسند ہلاک ہوئے تھے، جن میں غیر ملکی شدت پسند بھی شامل تھے۔