• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

غداری مقدمہ: مشرف کے ساتھی بھی خطرے میں

شائع March 16, 2014
سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف۔ فائل فوٹو
سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے خصوصی عدالت میں دائر اپنی حالیہ درخواست تین نومبر کے اقدام میں مبینہ طور پر سازش کا حصہ بننے والے عناصر کی جانب اشارہ کیا ہے۔

اگر یہ درخواست منظور کر لی جاتی ہے تو اس سے متعدد اعلیٰ سطح کے فوجی اور سویلین حکام پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے۔

سابق فوجی صدر کے خلاف سنگین غداری کے سلسلے میں خصوصی عدالت میں جاری مقدمے میں حال ہی میں یہ درخواست دائر کی گئی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے نفاذ میں ان کا ساتھ دینے والی سویلین قیادت اور فوجی حکام کے خلاف بھی ان کے ساتھ غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔

نومبر تین ایمرجنسی کے اعلامیے کے مطابق پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیر اعظم، چاروں صوبوں کے گورنرز، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہان، وائس چیف آف آرمی اسٹاف اور کورپس کمانڈرز سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا۔

خصوصی عدالت میں زیر التوا درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسی لیے یہ عدالت کے لیے ضروری ہے کہ اوپر درج حکام کے ناموں کو ملزمان کی فہرست میں ڈالا جائے ۔۔۔۔۔ تاکہ سب پر اکٹھا مقدمہ چلایا جا سکے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں مقدمے کی صحت پر اثر پڑے گا'۔

اس بات سے قطع نظر کہ یہ درخواست قبول ہوتی ہے یا مسترد، یہاں ان تمام حکام، کورپس کمانڈر اور دیگر فوجی افسران کے نام پیش ہیں، جن کے نام اس اعلامیے میں موجود ہیں۔

سویلین اور ریٹائرڈ فوجی افسران میں اعلامیے کے مطابق سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، گورنر پنجام لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ خالد مقبول، گورنر خیبر پختونخوا لیفٹننٹ جنرل علی جان اورکزئی، بلوچستان کے جان محمد یوسف اور گونر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی نافذ کی گئی۔

جن فوجی افسران سے مشاورت کی گئی ان کی فہرست میں آگے چلیں تو اس میں سب سے اہم نام جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ہے۔ جب تین نوبر 2007 کو مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی اس وقت وہ وائس چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر فائض تھے۔

انتیس نومبر 2007 کو جنرل مشرف کی جگہ آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے والے کیانی چھ سال تک اس عہدے پر فائض رہے۔ وہ پہلے فوجی سربراہ تھے جن کی مدت ملازمت میں ایک جمہوری حکومت نے توسیع کی۔

وہ اکتوبر سے نومبر 2013 کے دوران قائم مقام چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی اضافی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔

اس کے بعد آنے والے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید کا نام بھی تین نومبر کو لگائی گئی ایمرجنسی کی مشاورتی ٹیم میں شامل ہے۔ مجید نے آٹھ نومبر 2007 کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کا عہدہ سنبھالا تھا۔

اعلامیے میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس وقت کے تینوں افواج کے سربراہان سے بھی اس سلسلے میں مشاورت کی گئی تھی اور اس لحاظ سے اس وقت کے بحریہ کے سربراہ محمد افضل طاہر کو بھی مقدمے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

طاہر نے سات مارچ 2005 کو بحریہ کے سباق سربراہ ایڈمرل شاہد کریم اللہ سے نیوی کی کمان لی تھی جس کے تین سال بعد ان کی مدت ملازمت ختم ہوگئی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے وقت فضائیہ کے سربراہ تنویر محمود احمد تھے جنہوں نے 2006 سے 2009 تک ایئر فورس کے سربراہ کی ذمے داریاں انجام دیں۔

فہرست میں مزید آگے بڑھیں تو اگلا نام لیفٹننٹ جنرل حسن کمال کا ہے جو کمانڈر 10 کورپس راولپنڈی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔

ء1953 کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے جنرل کمال نے اپنی ابتدائی تعلیم مظفرآباد سے حاصل کی۔ انہوں نے 1966 میں کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخلہ لیا اور 1971 تک اس کا حصہ رہے۔ اسی سال انہوں نے کاکول میں پاک فوج کی اکیڈمی جوائن کر لی، وہ 2010 میں اپنی سروس سے ریٹائر ہوئے۔

اس موقع پر خدمات انجام دینے والے تمام ہی افراد ریٹائر یا عوامی منظر نامے سے غائب نہیں ہوئے۔

اس وقت کراچی کے کورپس کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے لیفٹننٹ جنرل احسن اظہر حیات اس وقت اردن میں پاکستان کے سفیر ہیں اور انہیں اس عہدے پر 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے تعینات کیا تھا۔

اس وقت کورپس کمانڈر 1 کورپس منگلہ کے عہدے پر فائض لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ سجاد اکرم بھی مبینہ طور پر ان لوگوں میں شامل ہیں جن سے تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ کرتے وقت رائے لی گئی تھی۔

حیدرآباد میں 1954 میں پیدا ہونے والے سجاد اکرم کو الیٹ انفنٹری بٹالین، بولچ رجمنٹ کی گیارہویں بٹالین میں کمیشن ملا تھا۔

اس وقت کمانڈر 31 کورپس بہاولپور کے عہدے پر فائض ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل رجا محمد خان بھی اس میٹنگ میں موجود تھے، خان اس منصب پر اپریل 2007 میں تعیناتی ملی اور وہ اکتوبر 2008 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

اس وقت کورپس کمانڈر 2 کورپس ملتان کی ذمے داریاں انجام دینے والے ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل سکندر افضل بھی اس مشورے میں جنرل مشرف کے اتحادیوں میں سے تھے۔

اس سلسلے میں اگر غداری کے مقدمے میں تفتیش کا دائرہ کار بڑھایا گیا تو اس وقت کمانڈر 11 کورپس پشاور کی ذمے داریاں انجام دینے والے مسعود اسلم کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جنرل اسلم نے مشرف دور میں جی او سی جہلم اور ساتھ ساتھ قومی احتساب بیورو پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل کے فرائض بھی انجام دیے، دسمبر 2009 میں راولپنڈی کے پیریڈ لین مسجد میں ہونے والے خود کش حملے میں وہ اپنے اکلوتے بیٹے ہاشم مسعود اسلم سے محروم ہو گئے تھے۔

انہوں نے تحرک طالبان پاکستان کے خلاف سوات، بونیر، لوئر دیر، مہمند، باجوڑ، فرنٹیئر ریجن بنوں، درہ آدم خیل اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن بھی کیا۔

اور اب آخری اہم نام جنرل خالد شمیم وائیں کا جو تین نومبر کی ایمرجنسی کے نفاذ کے وقت کمانڈر 12 کورپس کوئٹہ کے عہدے پر موجود تھے۔ انہں بعدازاں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے پر فائض کر دیا گیا جس پر وہ ریٹائرمنٹ تک فائض رہے۔

فوجی ذرائع سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی ایک فرد واحد نے نافذ کی۔

ان میں سے جن کے بارے میں مشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں ان تمام افراد سے مشاورت کی وہ تمام لوگ سابق فوی آمر سے جونیئر تھے۔

ایک آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کیونکہ یہاں اپنے سے بڑے افسر کو نہ کہنے کا کوئی نظریہ نہیں لہٰذا ایمرجنسی کے نفاذ کی تمام تر ذمے داری اس وقت کے آرمی چیف پر عائد ہوتی ہے، ان سے جونیئرز کی اس حوالے سے ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا'۔

جنرل مشرف کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل حسین نے کہا کہ ان کے موکل اکیلے نہیں تھے کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملنے والی ہدایات پر عمل کیا۔ انہوں نے سینئر فوجی قیادت اور تمام متعلقہ حکام سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی نافذ کی۔

تاہم استغاثہ کے سربراہ اکرم شیخ نے اس بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اعتراض کیا کہ ایف آئی اے کی چار رکنی ٹیم نے اپنے فیصلے میں مشرف کو ایمرجنسی کے نفاذ کا ذمے دار پایا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اگر مشرف کے پاس اپنے ساتھیوں یا دیگر سیاسی رہنماؤں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت ہیں تو انہیں فوراً اسے پیش کرنا چاہیے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Israr Muhammad Mar 16, 2014 11:01pm
اس‏ ‏درخواست‏ ‏کا‏ ‏سے‏ ‏یل‏ ‏مطل‏ت‏ ‏ ‏بھی‏‏ ‏نکالا‏ ‏جاسکتا‏ ‏ھے‏ ‏کہ‏ ‏موجودہ‏ ‏فوجی‏ ‏قیادت‏ ‏مشرف‏ ‏کی‏ ‏حامی‏ ‏نہیں‏ ‏اور‏ ‏فوج‏ ‏اداروں‏ ‏کے‏ ‏کسی‏ ‏مہم‏ ‏جوئی‏ ‏کا‏ ‏حصہ‏ ‏نہیں‏ ‏بننا‏ ‏چاہتی‏ ‏اسلئے‏ ‏مجبورآ‏ ‏انکو‏ ‏اس‏ ‏قسم‏ ‏کی‏ ‏درخواست‏ ‏کی‏ ‏ضرورت‏ ‏پڑی‏ ‏ نواز شریف نے بلےکو پکڑا ھے اور‎ ‎حود انجان بن کر بیٹھا ھے بظاہر معاملہ عدالت کے سپرد کیا گیا ھے مشرف کے معاملے میں بڑی ساسی پارٹیاں بھی حکومت کے ساتھ ھیں دوسری طرف مشرف نے فوجی ہسپتال میں پناہ لےرکھی ھے جس کی وجہ سے لوگ شکوک میں مبتلا ھیں لیکن مشرف کی اس طرز عمل سے فوج خوش نہیں حکومت نے انکے بھاگنے کی تمام راستے بن کررکھے ھیں اور بیرونی طاقتوں نے بھی ان سے ہاتھ کھینچ لیا ھے اب بس فوج توڑی سی ان کی حمایت کررہی ھے وہ بھی جلدان کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹالینگے‎ ‎اگر ایک بار مقدمہ چلا تو ائندہ کیلئے کوئی فوجی امر کبھی بھی آئین توڑنے کی جرآت نہیں کرسکے گا نہ کسی لیڈر کو پھانسی ھوگی اور نا کسی سیاسی لیڈر کو قلعے میں بند کیا جاسکے گا اور نا کسی کو جلاوطن کیا جائیگا ھم ملک میں عوامی بالادستی چاھتے ھیں
Fakhir Azmat Mar 16, 2014 11:22pm
Men at Their Best - من جانبازم بیویوں‘ماؤں‘بہنوں کی نظریں ۔۔۔ تم کو دیکھیں تو یوں ڈگمگائیں۔۔۔ جیسے خاموشیوں کی زباں سے ۔۔۔ دے رہی ہوں وہ تم کو بَلائیں۔۔۔ در فروشی ہے ایماں تمہارا ۔۔۔ ذلتوں کے پرستار ہو تم۔۔۔ جو حفاظت کرے سرحدوں کی ۔۔۔ وہ فرش بوس دیوار ہو تم۔۔۔ اے قباحت کے زندہ نشانوں ۔۔۔ ’این آر او‘ کے روشن خیالوں۔۔ یہ سارے جھگڑے تمہارے کئے ہیں۔۔۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024