سیکس اہم، سکینڈلز فضول
اداکارہ میرا کے معاملے پر ہمارے معاشرے کا تاریک رُخ ایک بار پھر سامنے آگیا ہے. میں شاید کبھی نہ سمجھ سکوں کہ ہم سکیس سکینڈلز کو اس قدر کیوں اُچھالتے ہیں۔ ایک فطری تقاضا جسے ہم نہ تو تبدیل کرنے پر قادر ہیں نہ روکنے پر پھر بھی اس کام پر اتنی توانائیاں صرف کرنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔
یہ بات تو شاید اب ہر کسی نے سن رکھی ہو کہ ہم کام کو مخصوص جگہ اور مخصوص جگہ کو اپنے ذہن میں رکھنے کی عادی قوم ہیں جبکہ دیگر ترقی یافتہ اقوام کہ جن کی تقلید ہمیں کرنی ہو گی اس کے برعکس کرتے ہیں۔
جسمانی تقاضے روزِ اول سے انسان کے ساتھ رہے ہیں۔ تاریک دور میں انسان اس فعل کو گناہ نہ سمجھتا تھا اور دیگر حیوانوں کی طرح اسے ضرورتاً سر انجام دیا کرتا۔ یہ چونکہ حیوانی جبلت میں شامل ہے چنانچہ اسے سر انجام دینے کے لیے کسی مخصوص مشق کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ انسان خود میں موجود اس جبلت کی بدولت دُوسرے جانداروں کی طرح ایک خود کار نظام کے تحت اسے سیکھتا رہتا ہے۔
گناہ اور ملکیت کے تصور نے انسانی فطرت کے اس تقاضے پر کاری ضرب لگائی اور وہ باوجود ضرورت ہونے کے اس کو اس کے اپنے ہی تخلیق کردہ ایک دائرے سے باہر کرنے پر شرمندگی محسوس کرنے لگا۔ اس دائرے نے اس کے ایک اور فطری تجسس کو ہوا دی ہے اور وہ چاہے کس قدر ہی 'متّقی' کیوں نہ ہو جنسی فعل سے نہ تو پرہیز کر سکتا اور نہ ہی اس بارے اپنی سوچ پر پابندی لگا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ طے ہے کہ جب تک انسان موجود ہے جنسی فعل بھی موجود ہے۔
جدید تحقیق نے یہ بات ثابت بھی کر دی ہے کہ جو انسان کسی وجہ سے یہ فعل سر انجام دینے پر قادر نہ ہوں یا اُس کے اعضائے مخصوصہ بیماری کے سبب ایسا نہ کر سکیں تو بھی اس کی خواہشات ہر صورت موجود رہتی ہیں۔ جب اس صورتحال سے چھٹکارہ ممکن نہیں تو اب ہمیں اس صورتحال سے سمجھوتہ کرنا ہو گا اور اسے چھوڑ کر دیگر امورِ زندگی پر توجہ دینی ہو گی.
مگر، وطن عزیز یعنی پاکستان کے باسی ابھی اس پر رضا مند نہیں دکھائی دیتے، وہ اپنے دیگر مسائل کی طرح اسے بھی ساتھ گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی کے ذاتی فعل کو جو اُس نے محض اپنی تسکین کے لیے سر انجام دیا ہو کو قومی سطح کا مسئلہ بنانے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ اداکارہ میرا اور کیپٹن نوید نے جو کچھ بھی کیا ہے یا نہیں کیا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اُس سے باقی ماندہ قوم کو کیا پریشانی لاحق ہوئی ہے یا مستقبل میں ہو سکتی ہے؟
مذہب، قانون، رسوم و رواج اور ثقافت وغیرہ وغیرہ پر البتہ اس قسم کے فعل سے ضرب ضرور لگتی ہے مگر ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہزاروں سال سے موجود ان چیزوں کی وجہ سے کیا اس عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو سکی ہے؟
جواب یقیناً 'نہیں' ہے کیونکہ زنا، ہم جنس پرستی، خود لذتی اور دُنیا کا قدیم ترین پیشہ ان تمام مذکورہ رکاوٹوں کے باوجود جاری ہے اور شاید ہمیشہ رہے گا۔ رنگ، نسل، ذات پات وغیرہ بھی یہاں پر آکر 'ایکا' کر لیتے ہیں۔
ہمیں اس معاملے کو نظر انداز کرنا ہو گا یا پھر سمجھوتہ کرنا ہو گا کہ دیگر کئی اہم امور ہماری توجہ کے طالب ہیں۔ مشہور شخصیات کے جنسی سکینڈلز، ناجائز تعلقات، اغوا برائے حرام کاری کے پرچے، رنگ رلیاں مناتے ہوئے گرفتاریاں، گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کی سنسنی خیز داستانیں، جب تک ہماری توجہ حاصل کرتے رہیں گے دیگر اہم امور کے لیے جگہ بنانا مشکل ہو گا۔
دوسرا اہم کام سیکس کی ضرورت کو سرعام تسلیم کرنا ہو گا کیونکہ منافق رویوں سے بہرحال بہتری کی توقع نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اسے بُرا سمجھتے ہیں اور کرتے بھی ہیں تو ہم سے اچھی شاید وہ طوائف ہے جو اپنے پیشے سے جڑی تمام قباحتوں کو تسلیم کرتی ہے اور معاشرے کے سامنے اپنا ظاہر و باطن کھلی کتاب کی مانند رکھ دیتی ہے۔
تبصرے (11) بند ہیں