• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am

فن اور اس کا انجام

شائع March 11, 2014
فریئر ہال، کراچی -- حالیہ تصویر -- بشکریہ -- اختر بلوچ
فریئر ہال، کراچی -- حالیہ تصویر -- بشکریہ -- اختر بلوچ

فریئر ہال کی چھت ٹپک رہی ہے۔ بالعموم، یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں- فی الحال تو پاکستان خود پریشانی کے لمحات میں الجھا ہوا اور مصیبتوں اور تباہیوں کی زد پر ہے جو پانی کے ٹپکنے سے بہت زیادہ بڑی ہیں-

عدم توجہی اور عوامی اجتماعی ملکیت کا یہاں بہت پرانا ساتھ ہے- فریئر ہال پر ہر شخص کا حق ہے، لہٰذا یہ کسی کا بھی نہیں- اٹلی اور وینس کے طرز تعمیر کی یہ عمارت جو کافی عرصہ پہلے ایک کالونیل کمشنر کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی، کراچی کے باسیوں کی کئی نسلوں کو کافی عرصہ تک اپنی خوبصورت جھلک دکھاتی رہی ہے- آج کل یہ عمارت کراچی کی گولیوں سے گونجتی ہوئی راتوں میں، پاکستانی جھنڈا لہراتی ، حال کے رنگوں کی روشنی میں ماضی کی یادوں کے ساتھ ، فلڈ لائیٹ کی روشنی میں نہائی، چپ چاپ کراچی کے حالات کا نظارہ کررہی ہے-

یہ سب تو کراچی کے سیاسی حالات کا بیرونی نتیجہ ہے- لیکن اندرونی حالات بھی ایک تلخ المیے سے کم نہیں- فریئر ہال کی چھت جسے ایک مشہور مصور نے اپنی ایک شاہکار تخلیق کے لئے منتخب کیا تھا- "ارض و سموات " (زمین اورآسمان) صادقین کا آخری منصوبہ تھا؛ اس کو مکمل کرنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا-

مصور کی جانب سے یہ میورل، کراچی کے شہریوں کیلئے ایک تحفہ کے طور پر ہوتا- ایک عام آدمی کی پہنچ میں ایک نادر، اعلیٰ وارفع اور اچھوتی تخلیق، ایک پارک میں موجود ایک عوامی عمارت میں، جو بھی چاہتا اسے دیکھ سکتا، اور انہیں دیکھنے کیلئے انسان جب اپنی نظریں اوپر اٹھاتا تو اسے ایسا نظارہ دکھائی دیتا جو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا-

1950 میں اس فنکار کی تخلیقات کی پہلی نمائش، فریئر ہال کی عمارت ہی میں منعقد ہوئی تھی اور اسی بنا پر انہوں نے اس عمارت کا انتخاب ایک ایسی تخلیق کے لئے کیا جو وہاں دائمی طور پر موجود ہوتی- اس وقت فریئر ہال کی عمارت مرمت کے حوالے سے عدم توجہی کا شکار تھی اور یہ آرٹسٹ کی جانب سے اس تاریخی عمارت میں زندگی کی روح پھونکنے کی ایک کوشش تھی- وہ اپنے اس کام میں اتنی محویت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے کہ وہ اس کام کے دوران اسی عمارت میں رہ رہے تھے-

اس میورل کے ساتھ پہلا المیہ یہ ہوا کہ یہ نا مکمل رہ گئی- صادقین کی 10 فروری 1987 کی موت کی وجہ سے یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا- اس کے آگے جو اندھیرا تھا، وہ شاید اس نامکمل کام سے بھی زیادہ تھا اور جس پر شاید کسی کا دھیان بھی اس وقت نہیں گیا تھا- جس وقت صادقین کا انتقال ہوا اس وقت ان کا کام تین آرٹ گیلریوں میں پھیلا ہوا تھا- وہ گیلری جو فریئر ہال میں تھی وہ گیلری صادقین کہلاتی تھی-

آرٹسٹ کا تمام کام، اصلی تخلیقات، ان کی محنت سب پاکستان کا سرمایہ تھی- اور خواص و عام کی پسند تھی- اور پاکستان ایک 40 سالہ نوعمرریاست، نے ایک بہت بڑا فنکار پیدا کیا تھا، اس فنکار نے بھی عہد وفاداری نبھایا- اور مرتے وقت اپنا سارا کام، سینکڑوں خاکے، مصوری کے نمونے منقولہ اور غیر منقولہ میورال سب اپنے ملک اور شہر کے حوالے کرگیا- کراچی میونسپل کارپوریشن کو ان کا بہت سارا کام ورثے میں ملا-

کافی سالوں تک، گیلری صادقین وہاں رہی- ایسے شہر میں جو بدنظمی کا شکار ہو وہاں آرٹ کی قدر نہیں ہوتی- جو پینٹنگز وہاں رکھی ہوئی تھیں ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کا کام بہت مشکل تھا- چوریوں کی واردات کی رپورٹیں بھی ملی تھیں- جب کراچی میونسپل کارپوریشن کا خاتمہ ہوا اس زمانے میں کے ایم سی کے پاس جو پینٹنگز تھیں ان میں سے کافی غائب بھی ہو گئیں-

سلمان احمد کے مطابق، جو صادقیں فاونڈیشن کے موجودہ سربراہ ہیں، مرحوم فنکار کے خاندان کے لوگوں کو کافی کوششوں کے بعد بھی ان کی کافی پینٹنگز کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں- کئی مرتبہ پتہ چلا کہ وہ لوگوں کی نجی ملکیت میں ہیں اور کہیں سے حاصل کی گئی ہیں اور عالمی مارکیٹ میں نیلامی کے لئے انہیں خریداروں کے سامنے پیش کیا جائیگا- یعنی جو کچھ آرٹسٹ نے پاکستان کے لوگوں کیلئے چھوڑا تھا اسے اب پاکستان کے لوگ پھر کبھی نہیں دیکھ سکیں گے-

میورال کو چرا کے لے جانا یا انہیں کسی جگہ چھپا کے رکھنا اور بیچنے کی کوشش کرنا بہت مشکل کام ہے- شاید صادقین کو یہ بات پتہ تھی جب انہوں نے اپنی فنی توانائی کی سرمایہ کاری کی- یہ ان کا آخری سرمایہ تھا جو انہوں نے اس کی تخلیق میں لگادیا- انہیں شاید امید تھی کہ وہ اس طرح آرٹ کو دوآم بخش دیں گے، جو اس کے جواز اور اس کے وجود کی قیمت ہوگی اور وہ تمام لوگوں کی پہنچ میں ہوگا-

میورال ہمیشہ باقی رہتا ہے، اسے گوداموں میں نہیں رکھا جاسکتا، اسے بیچ کر غیرقانونی منافع نہیں کمایا جاسکتا- وقت گذرنے کے ساتھ، پاکستان نے اس بات کو بھی غلط ثابت کردیا- پچھلے کئی سالوں سے، فریئر ہال کی چھت پر بنا ہوا میورل آج شکست وریخت سے دوچار ہے، ٹپکتی ہوئی چھت کا پانی اس شاہکار کو آہستہ آہستہ اس کی موت کی طرف دھکیل رہا ہے- حکام کو، گورنر سندھ کو اور فریئر ہال کی انتظامیہ کو بار بار یاد دہانی کرائی گئی لیکن بے فائدہ-

صادقین فاونڈیشن کے ممبران نے، جنہیں اس غیر معمولی نقصان کا اندازہ ہے، بہت کوشش کی کہ اس میں مداخلت کریں یہاں تک کہ اس کی حفاظت اور بحالی خود اپنے خرچہ پرکرنے کی پیشکش بھی کی- ان کی تمام درخواستوں کو بالکل نظرانداز کردیا گیا- ٹپکتی ہوئی چھت، میورل کو تباہ کررہی ہے جسے ایک ایسے فنکار نے بنایا تھا جسے پاکستان سے پیار تھا اور جو مرتے دم تک پاکستان کیلئے تصویریں بناتا رہا-

سوگ کے اس لمحہ میں اور موجودہ عدم توجہی اور شکست و ریخت کے درمیان، کچھ وقت نکال کر آنے والی تباہیوں پر ضرورغوروفکر کرلینا چاہئے- وہ تباہی جس کے سارے نشانات آج ہر طرف نظر آرہے ہیں- صادقین کے ورثہ کا یوں آہستہ آہستہ معدوم ہونے کا عمل، ایک میورل جو فضا میں رطوبت اور دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے مدھم پڑتا جا رہا ہے، یہ سب ایک ایسے ملک کی مثال کی طرح ہے جو خود ہچکیاں لے رہا ہے-

وہ بے رحم خونی، جن سے یہ ملک امن کی آس لگائے ہوئے ہے ان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ ہر اس چیز کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جس سے سوچنے کی تحریک ملتی ہے، جس میں دوسروں کے لئے خیر کے جذبات ہوتے ہیں، یا انجانی خوبصورتیوں کی تلاش کا عمل- وہ سیاہ اور سفید پاکستان جو ہمیں ملے گا، اورجس میں ہر شے ممنوع اور ہر کام پر قدغن ہو گی، اس میں اس آرٹ کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوگی جو حدوں سے ماورا ہے، رہا فریئر ہال کی چھت کا سوال، ایک فنکار کے آخری الفاظ اور اس کا آخری کام، یہ سب ایک تنبیہ کی مانند ہے--- فن کی ایک للکار، تباہی اور بربادی کی قوتوں کے سامنے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفری۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024