ایک قدم آگے یا دو پیچھے؟
جیسا کہ پہلے سے پتہ تھا، مذاکرات کی میز پر واپس آہی گئے، ان شدید اور زوردار فضائی حملوں کے بعد جنہوں نے متوقع طور پر طالبان کو ہلا دیا-
تاہم، یہ، تحریک طالبان پاکستان نہیں تھی جس نے اس معاملے میں پہل کی- ان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان اس وقت آیا جب حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرادی گئی کہ حکومت کی طرف سے مزید حملے نہیں کئے جائینگے-
جنگ میں اس عارضی التوا نے اس غیر قانونی گروہ کو کافی مشکلوں سے بچا لیا، تاکہ انہیں پھر سے دوبارہ قدم جمانے کیلئے وقت مل جائے- اور شریف حکومت لگتا ہے کہ دیدہ ودانستہ ان کے جال میں پھر سے آگئی- ایسا محسوس ہوتا جیسے تشدد پسندوں کا چیلینج قبول کرنے کی ان میں ہمت نہیں-
ایف سی کے سپاہیوں کے گلے کاٹنے کے واقعات پر ان میں کوئی پشیمانی نہیں ہے اور نہ پولیو کی ٹیم پر حالیہ حملوں کے سلسلے میں؛ چلو کوئی بات نہیں--- بلکہ، ہمیں تو طالبان کی عالی ظرفی کی داد دینی چاہئے کہ وہ " امن مذاکرات" کیلئے پھر سے تیار ہوگئے ہیں- ہمیں تو ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کے آگے تعظیم سے جھک جانا چاہئے، اس سوات کے قصائی کے، جس نے بہت زیادہ عرصہ نہیں گذرا پاکستانی فوج کے ایک سینیئر جنرل کو مارنے کی ذمہ داری قبول کی تھی، اس نفرت انگیز ویڈیو کو بھی بھول جانا چاہئے جس میں سپاہیوں کے کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلتے ہوئے دکھایا گیا تھا- جو ہوگیا سو ہوگیا؛ اب ہمیں ان سب سے آگے بڑھنا چاہئے، ہم سے کہا جاتا ہے- لیکن کیا یہ وحشی قاتل اچانک امن کا پرچار کرنے والوں میں تبدیل ہو گئے؟
اس کے بالکل برخلاف- صلح نامہ کے اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر، بندوق برداروں نے اسلام آباد میں عدالت کے احاطے کے اندر حملہ کیا، اور اس پر تعجب کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی نے حسب معمول اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا- لیکن رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان سے وابستہ ایک ذیلی تنظیم دارالحکومت کے مرکز میں اس بے شرمانہ حملے کی ذمہ دار ہے-
مختلف تشدد پسند گروپوں کے درمیان جو تعلق ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا - لیکن اس سے اس انتظامیہ کو کیا فرق پڑتا ہے جو ان کو ہر طرح کی چھوٹ دینے کیلئے بے چین ہے-
یہ ایک سیدھا سادہ سفید جھوٹ کا کیس ہے جس کا ماضی میں ہمیں کئی بار تجربہ ہوچکا ہے- یقینی طور پر، طالبان کی معصومیت کا سب سے زیادہ پرزور دفاع وزیروں اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ممبروں کی طرف سے آئیگا- یہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے، جو وہ اس قسم کے ہر حملے کے بعد چیخ چیخ کر کہتے ہیں- لیکن آخر یہ کس کی سازش ہے؟ انگلیاں عموماً کسی پراسرار خفیہ غیر ملکی ہاتھ کی جانب اشارہ کرتی ہیں-
حقیقت تو یہ ہے، کہ مذاکرات میز سے کبھی ہٹائے ہی نہیں گئے، ہاں جب لڑاکا جیٹ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کی پناہ گاہوں پر حملے کررہے تھے تب ان کی گونج میں میڈیا کی نظریں ادھر سے تھوڑی دیر کیلئے دوسری جانب ہو گئی تھیں- بظاہر، ان کے اندرونی رابطے اس وقت بھی نہیں ٹوٹے تھے جب کہ لڑاکا جیٹ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر بمباری کررہے تھے- جنگ بندی کا ایک معاہدہ اس وقت موجود ہے- لیکن یقیناً بہت زیادہ پرامید ہونے کی کوئی نمایاں وجہ نہیں ہے- کیونکہ اس طرح کی خوش فہمیاں زیادہ دیر تک نہیں رہتیں-
اب اصل مشکل مرحلہ آگے ہے: ان دونوں کے درمیان کس موضوع پر بات ہوگی؟ یہ صلح نامہ کتنے عرصے کے لئے کارآمد ہوگا، جبکہ درجنوں ٹی ٹی پی کے جتھے اپنے الگ الگ ایجنڈے کے ساتھ موجود ہیں؟ یہ تو کوئی بھی قیاس کرسکتا ہے- اسلام آباد میں عدالت پر حملہ سے یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ ٹی ٹی پی کے لئے کسی بھی تشدد پسند گروپ کی آڑ میں کوئی کام کرنا کتنا آسان ہے- دہشت گردوں کے حملوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے جب کہ سیکیورٹی فورسز کو حملے بند کرنے کا حکم دیا جاچکاہے-
حملوں کے بند ہونے سے ٹی ٹی پی ڈرائیونگ سیٹ پر واپس آچکی ہے جبکہ فوج کے ٹھیک ٹھیک نشانوں پر حملوں نے شمالی وزیرستان میں انکے حملہ کرنے کے ٹھکانوں اوردہشت گرد حملوں کی صلاحیت کو معذور کردیا تھا- اس مختصر اور جامع فوجی مہم کی سب سے بڑی کامیابی چند سینیئر کمانڈروں کی موت تھی جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی بہت دباؤ میں آگئی تھی- اس چھوٹے سے عرصے میں دہشت گرد حملوں میں واضح کمی آگئی تھی لیکن ایسا لگتا کہ وہ سب بے فائدہ تھا- خطرہ اس بات کا ہے کہ وہ چند فوائد جو ان آخری فوجی حملوں کی وجہ سے حاصل ہوئے تھے انہیں مذاکرات کی میز پر کھو دیا جائے گا، اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو نئی زندگی مل جائیگی-
ٹی ٹی پی کی قیادت کی یہ ایک انتہائی شاطرانہ چال ہے کہ انہوں نے ایک مہینہ کی جنگ بندی کا معاہدہ کیا ہے اورنہایت مہارت کے ساتھ بال حکومت کی کورٹ میں پھینک دی ہے- ان کیلئے معاہدہ نے ایک بہت مفید مقصد حاصل کیا ہے فوجی حملوں کو سردی کے موسم میں فوری روکنے کا، جب سخت موسم کی وجہ سے ان کے جنگجوؤں کی نقل وحرکت محدود ہو جاتی ہے-
بہار کے موسم میں وہ پہاڑوں میں بکھر کر چھپ سکتے ہیں--- اس طرح وہ فوج کیلئے اس غیر متوازن جنگ میں مشکل پیدا کرسکتے ہیں- جہاں ٹی ٹی پی کی ایک واضح حکمت عملی ہے- وہیں حکومت مکمل طور پر الجھن میں ہے، بغیر کسی واضح سوچ کے کہ اسے مذاکرات کے ذریعہ سے کیا حاصل کرنا ہے-
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ٹی ٹی پی کا اصل مقصد اپنے اہم کمانڈروں کی رہائی اور فوج کی وزیرستان کے چند علاقوں سے واپسی ہے- ان مذاکرات میں جتنی تاخیر ہوگی اس کا فائدہ طالبان کو ہوگا، حکومت کے اندر موجود اس الجھن اور لڑنے کے عزم کی کمی کا فائدہ اٹھاکر وہ فریب کے اس کھیل کو جاری رکھ سکتے ہیں- اور حکومت کے پاس مذاکرات کی میز پر رکھنے کیلئے کیا ہے؟
اس کا کسی کو علم نہیں- ایک چیز بہرحال صاف ہوگئی ہے، مذاکرات نے دہشت گرد ٹولے کو جائز بنا دیا ہے، اگرچہ کہ اس نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین کو تسلیم کرتا ہے- ملک کے آئین کے مطابق مسلح ملیشیا قائم کرنا، اور پھر اس غیرقانونی مسلح گروہ کے ساتھ بات چیت میں شامل ہونا ایک غیرقانونی کام ہے، اور حکومت یہ کام کرکے خود ملک کے آئین کو توڑنے کا موجب بن رہی ہے- یہ ایک خطرناک اور غلط مثال قائم کرنے کے برابر ہے، ریاست کی پہلے سے کم ہوتی ہوئی حاکمیت کو مزید نقصان پہنچانا ہے-
طالبان کے لئے مذاکرات مزید وقت اورمہلت حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہے- حکومت نے ایک دہشت گرد گروہ کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات شروع کرکے خود اس قوم کی سلامتی کو بھی داؤں پر لگا دیا ہے- حکومت جتنا جلد اس خود فریبی کے دھوکے سے نکل آئے اتنا ہی اس ملک کے استحکام کے لئے بہتر ہوگا- ایک ایسی پالیسی جس میں ایک قدم آگے بڑھا کر دو قدم پیچھے ہٹ جائیں وہ امن کی ضمانت نہیں دے سکتا ہے، ہاں اس سے موت اور تباہی لازمی اور یقینی ہے-
ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری