عدم برداشت کی انتہا
عدم برداشت کی وہ لہر جو پورے پاکستان کو پچھلے کئی سالوں سے لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، اب لگتا ہے کہ معاشرے کو دیوانگی اور بربریت کے خلاف مزاحمت کی آخری علامتوں سے بھی محروم کر دے گی-
احتجاج کی چند آوازوں کے علاوہ ایسے غصہ کا کہیں کوئی نام و نشان بھی نہیں دکھائی دیتا ہے جو چترال میں کالاش قبیلے اور اسماعیلیوں کو ملنے والے الٹی میٹم --- کہ یا تو مذہب بدل لو یا مرنے کیلئے تیار ہو جاؤ--- کے بعد نظر آنا چاہئے تھا-
حکومت اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟ یا شاید یہ سمجھتی ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کے بعد تشدد پسندوں کے خیالات پاکستانی شہریوں، غیر مسلموں بلکہ مسلمانوں کے بارے میں بھی بدل جائینگے؟ اس طرح کی خام خیالی کا نتیجہ ایسی ناقابل بیان تباہی ہوگا جس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوگا-
جس کمیونٹی کو خطرے کا سامنا ہے اس کو صرف قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی طرف سے تحفظ کی یقین دہانی دلانا ہی کافی نہیں- کیونکہ ان ایجنسیوں کے اندر خود عدم برداشت کے جراثیم سرایت کر گئے ہیں. اس کے علاوہ بھی، کوئی بھی نظریہ خواہ کتنا ہی غیر منطقی کیوں نہ ہو، طاقت سے نہیں دبایا جاسکتا-
ارباب اختیار کو اس وارننگ کے جاری کرنے والوں کی نشان دہی کرنا چاہئے، اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ چترال میں موجود ان لوگوں کی بھی نشاندہی کی جائے جو ان کے اس جرم میں شریک ہیں، خاص طور پر وہ جو کالاش قبیلے کے لوگوں کی زمینیں غصب کرنے والے گروہوں کے مسلسل حملوں کے بعد جو بھی ان کی بچی کھچی جائداد ہے، اس سے بھی انہیں بے دخل کرنا چاہتے ہیں-
بالکل اسی طرح سے، ان قدآمت پسند اور روائیتوں کے پابند لوگوں اور گروہوں پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے جنہوں نے ان سماجی تبدیلیوں کوپسند نہیں کیا جو اسماعیلی اس علاقے میں لائے ہیں؛ یعنی بچوں کو تعلیم دیکر، عورتوں کا درجہ اونچا کر کے اور منشیات سے آزاد علاقے قائم کرکے --- کیونکہ اس سے کئی نام نہاد مولوی نما پارسا لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑی-
لیکن چترال کے لوگوں کو اس جان لیوا خوف سے نجات دلانے کیلئے حکومت اور عوام دونوں کو درندگی کے سامنے بے بسی سے ہتھیار ڈالنے کی عادت کو خیرباد ہو گا-
ہمیں یہی کمزوری حکمرانوں کے اس رویہ میں بھی نظر آرہی ہے جو پولیو کے ٹیکوں کے قدآمت پسند مخالفین کے ساتھ ہے- لگتا ہے کہ انہیں اس خطرے کی سنجیدگی کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے جو بچوں کو اس بیماری سے لاحق ہے-
ایسے بہادر ہیلتھ ورکرز یا بےخوف حفاظتی عملے کی تلاش یا انتظامیہ کی حفاظتی انتطامات کے اندر پولیو کے قطرے پلانے کا انتظام وغیرہ سب کچھ بے فائدہ ہے- وہ لوگ جو اس کے خلاف ہیں وہ ایک عجیب و غریب عقیدے کے پیروکار ہیں اور اس عقیدے سے چھٹکارہ پانے کے بعد ہی انہیں سمجھ آئیگی- حکومت بھی اس معاملے میں اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کر لیتی ہے کیونکہ اپنی زندگی، آزادی اور تحفظ کی طرف بڑھتے ہوئے خطرے کی جانب لوگوں کا رویہ بے حسی کا ہو گیا ہے-
عقائد کی بناء پر لوگوں پر روزانہ حملے اور ٹارگیٹڈ قتل کی تعداد اب معمول کی بات بن گیا ہے اور اس سے زیادہ بری بات یہ ہے کہ شہریوں کے ادبی مشاغل اور میڈیا کی آزادی میں مداخلت کی وارداتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں-
ریاست نے یہ معلوم کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں محسوس کی کہ ڈرامہ نگار اور استاد اصغر ندیم سید ایک قاتلانہ حملے کا نشانہ کیوں بنے؟ کیونکہ وہ اس حملے میں بچ گئے لہٰذا اعلیٰ افسران کوپولیس کی مجرموں کو ڈھونڈھنے میں ناکامی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے-
یہ معاملہ بھی ان تیزی سے بڑھتے ہوئے ناقابل حل کیسوں کی بند فائلوں میں ایک اضافے کے طور پر شامل ہو گیا ہے اور اس وقت تک یہ ایک سربستہ راز ہی رہیگا جب تک کہ کوئی مجرم غلطی سے کسی اور جرم میں پکڑا جائے اور ان پر قاتلانہ حملہ کرنے کا اعتراف کر لے اور پھر کسی کو اس مشکل کیس کو حل کرنے پر انعام سے نوازا جائے-
اس دوران میں بڑے پیر صاحب کا فرمان آجائے گا کہ بلاوجہ ان مجرموں پر الزام نہ دھرا جائے، اور ان قلمکار کو مشورہ دیا جائیگا کہ اپنے نام کے آگے "سید" لگا کر ان ہتھیار بند دہشت گردوں کو ناراض نہ کریں-
اسی نتیجے پر حکام اس وقت بھی پہنچے جب انہوں نے گجرات یونیورسٹی کے پروفیسر شبیر شاہ کے قتل کی فائل بند کی تھی جنہیں تین مہینے پہلے گولی مارکر ہلاک کر دیا گیا تھا- دراصل قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اسمارٹ اہلکار، واضح فرقہ وارانہ واقعہ کو بھی غیر فرقہ وارانہ ثابت کرنے کی کافی کوششیں کرتے ہیں- شبیر شاہ کے کیس میں انہوں نے یقین کرلیا تھا کہ ان کا قتل ان کے بائیں بازو کے خیالات کی وجہ سے ہوا تھا نہ کہ ان کے نام میں شاہ ہونے کی وجہ سے- لہٰذا پریشانی کی کوئی بات نہیں-
لکھنے والے عام طور سے مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں یہ بات ڈاکٹر صولت ناگی کے گھر پر حملے سے واضح ہوگئی تھی جنہوں نے ایک کتاب مذاہب کے ارتقاء کے بارے میں لکھی تھی اور اخباروں میں اکثر لکھتے رہتے تھے- ان کی کسی ادبی محفل میں پڑھی ہوئی کوئی بات کسی کو بری لگ گئی تھی-
مذہبی کٹرپن کی وجہ سے اختلافات کے عدم برداشت کی مثال کا ایک واقعہ دیوان سنگھ مفتون کی کتاب، ناقابل فراموش کے نئے ایڈیشن میں درج ہے- پبلشر جو ان کی کتاب دوبارہ شائع کرکے پیسہ کمانا چاہتا تھا وہ مصنف کے ایک مسلمان کردار کی تفصیل سے متفق نہیں تھا- اس نے ضروری سمجھا کہ بریکٹ میں یہ الفاظ لکھے "مسلمان، نہیں احمدی"- کیا اعتقادات کسی پرانی کتاب کی اصل عبارت سے اختلاف کی وجہ ہوسکتے ہیں؟
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ عدم برداشت کی مختلف قسمیں ہمارے معاشرے میں مذہب کے نام پر رائج ہیں --- جو عموماً غلط ہیں-
علماء یہ بات جانتے ہیں کہ مذہب کا غلط استعمال کیا جارہا ہے لیکن وہ خاموش رہنا پسند کرتے ہیں- ممکن ہے کہ وہ منطقی نظریوں اور لوگوں کو اپنے اقتدار کے بیچ میں حائل سمجھتے ہوں لیکن اگر ایسا ہے تو وہ غلطی پر ہیں کیونکہ عقلیت کے دشمن ان کو بھی نہیں بخشیں گے-
یہی حشر ان دانشوروں کا بھی ہوگا جو لوگوں سے تو کہتے رہتے ہیں کہ یہ سب ہمارے اپنے کئے کا پھل ہے لیکن اپنے لوگوں کو تعصب کے اس اندھیرے سے نکالنے کیلئے کچھ نہیں کرتے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری