• KHI: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • LHR: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • ISB: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • KHI: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • LHR: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • ISB: Zuhr 5:00am Asr 5:00am

جیت سے جیت تک

شائع March 3, 2014

اچھی باؤلنگ، یکطرفہ امپائرنگ، ڈراپ کیچز، پھر اچھی اوپننگ کے بعد غیر ذمے دارانہ بیٹنگ اور رننگ، پروفیسر کی بلے بازی، کوہلی کی افسردگی اور بوم بوم کے فتح گر چھکے۔ یہ کچھ احوال اتار چڑھاؤ سے بھرپور پاک و ہند ٹاکرے کا جس نے یقیناً دونوں ہی ملکوں کے شائقین کے دل جیت لیے۔

یہ میچ دونوں ملکوں کی تاریخ کا دوسرا سخت ترین مقابلہ ثابت ہوا جہاں پاکستان کی ایک وکٹ سے فتح پر منتج ہونے والا یہ مقابلہ شارجہ میں ہونے والے میانداد کے چھکے کی یاد دلا گیا۔

اٹھارہ اپریل 1986 کو شارجہ میں ہونے والے یادگار میچ میں میانداد نے چیتن شرما کی آخری گیند پر چھکا لگا کر پاکستان کو ایک وکٹ سے فتح دلانے کے ساتھ ساتھ آسٹریلیشیا کپ جتوا دیا تھا اور عجب اتفاق یہ کہ اس وقت بھی قومی ٹیم کو فتح کے لیے 246 رنز ہی درکار تھے۔

میرپور ون ڈے پر ابتدا سے غور کیا جائے تو ہندوستان شروع سے دباؤ میں دکھائی دیا جہاں ٹاس کے بعد ہندوستانی کپتان ویرات کوہلی نے کہا کہ ہم بھی ٹاس جیت کر بیٹنگ کرتے، اس ایک بیان نے یقینی طور پر بلو شرٹس پر نفسیاتی دباؤ میں اضافہ کیا۔

تمام غلطیوں سے قطع نظر کپتان مصباح الحق کی جانب سے ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کے دلیرانہ فیصلے نے دراصل میچ میں فتح کی بنیاد ڈالی اور گزشتہ 13 میچز میں نویں ہار ہندوستان کا مقدر بنا دی۔

گزشتہ 13 میچز میں انڈین ٹیم کو نو بار ہار کا دکھ سہنا پڑا جبکہ اس دوران وہ صرف دو میچز میں کامیابی اپنے کر سکے جہاں ایک میچ ٹائی جبکہ دوسرا مکمل ہی نہ ہو سکا۔

ہندوستانی بیٹنگ کو دیکھتے ہوئے طلحہ کی ٹیم میں شمولیت ایک انتہائی مثبت فیصلہ تھا لیکن اس کے لیے انور کو ڈراپ کرنا کسی بڑے غلطی سے کم نہ تھا خصوصاً ایک ایسی ٹیم کے لیے جو گزشتہ دونوں میچز میں اپنے چار بلے بازوں کی جانب سے اسکور نہ ہونے کا صدمہ جھیل رہی تھی۔

بہرحال باؤلرز نے اپنی ذمے داری خوب نبھائی، لیکن کیچ ڈراپ کرنے کی پرانی عادت اور امپائرز کی جانب سے ہندوستانی بیٹنگ کی بھرپور مدد نے مشکلات سے دوچار کوہلی الیون کو 245 رنز تک رسائی میں مدد فراہم کی۔

پھر جب بیٹنگ شروع ہوئی تو اوپنرز نے غیر متوقع طور پر 11 اوورز میں 71 رنز کا تیز آغاز فراہم کیا لیکن اسپنرز کیا آئے 96 تک پہنچتے پہنچتے قومی ٹیم تین وکٹیں گنوا بیٹھی۔

گزشتہ میچ میں بغیر کوئی گیند کھیلے رن آؤٹ ہونے والے کپتان اس بار حفیظ کی جانے یا انجانے میں کی گئی غلطی کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن پھر پروفیسر نے اس غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے کمال کر دیا۔

اس دوران گزشتہ میچز میں مواقع ملنے پر بڑی اننگ کھیلنے والے عمر اکمل مشرا کی گیند پر بڑا شاٹ کھیلنے کی کوشش میں بڑی غلطی کر بیٹھے۔

بظاہر جیت کی جانب گامزن ٹیم اب شکست کے دہانے پر کھڑی نظر آتی تھی اور مزید ایک وکٹ ہندوستان کو میچ جتوا دیتی لیکن حفیظ نے نوجوان صہیب مقصود کے ساتھ مل کر میچ بچاؤ مہم کا آغاز کیا اور میچ کی سب سے بڑی 87 رنز کی شراکت قائم کی۔

لیکن اس دوران سب سے پریشان کن وکٹوں کے درمیان رننگ تھی جہاں دونوں کھلاڑی ہم آہنگی سے عاری نظر آئے اور کئی مواقع پر یقینی سنگل رن چھوڑنے کے ساتھ ساتھ غلط فہمی کا بھی شکار ہوئے۔

پھر حفیظ نے بڑا شاٹ کھیلنے میں وکٹ گنوائی تو صہیب غلطیوں سے سبق نہ سیکھتے ہو گئے اور میچ ایک بار پھر حریف کے ہاتھ میں نظر آنے لگا، پر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

جارحانہ بلے بازی کے لیے مشہور شاہد آفریدی نے اس بار تجربے کا استعمال کرتے ہوئے عمر گل سے بڑے شاٹ لگوائے اور اس دوران خود بھی ہاتھ دکھاتے رہے۔ لیکن اتار چڑھاؤ سے بھرپور اس مقابلے میں ابھی بہت کچھ باقی تھا۔

پھر گل آؤٹ ہوئے اور اس کے بعد اسی طرح کا شاٹ کھیلنے کی کوشش میں طلحہ بھی رویندرا جدیجا کو کیچ دے بیٹھے لیکن پاکستانی شائقین کو اصل جھٹکا اس وقت لگا جب ایشون کی گھومتی گیند سعید اجمل کی وکٹیں اڑا گئی۔

جنید نے سنگل لیا اور ساری ذمے داری لالا کے کاندھوں پر آگئی جہاں ایک دن قبل 34 ویں سالگرہ منانے والے بوم بوم آفریدی نے 34 رنز کی اننگ کے کھیل کر قوم کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے دو لگاتار گیندوں کو فضاؤں کی سیر کرائی اور باؤنڈری کے پار پہنچا کر ٹیم کو فتح دلانے کے ساتھ ساتھ فائنل کھیلنے کا بھی مضبوط امیدوار بنا دیا۔

فتح سے قطع نظر اس میچ میں نوجوان پاکستانی بلے بازوں کی کارکردگی انتہائی پریشان کن رہی جہاں احمد شہزاد، صہیب مقصود اور شرجیل خان نے وکٹ پر سیٹ ہونے کے بعد وکٹیں گنوائیں اور گزشتہ کچھ میچز سے وہ وکٹ پر مشکل وقت گزارنے کے بعد وکٹ گنواتے رہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ لمبی چوڑی ٹیم مینجمنٹ کی نفری کے باوجود آخر ان بلے بازوں کی تکنیکی غلطیوں پر قابو کیوں نہیں پایا جارہا؟، اسی طرح عمر اکمل بھی جب تک موقع نہ ملے بڑی اننگ کھیلنے سے قاصر ہیں۔

اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پچ کی صورتحال دیکھتے ہوئے ٹیم میرپور ون ڈے بآسانی جیت سکتی تھی خصوصاً بہترین آغاز کے بعد ایسا ہی ہونا تھا لیکن ظہیر عباس کی موجودگی کے باوجود ابتدائی بلے بازوں کی غیر ذمے داری سمجھ سے بالاتر ہے۔

دوسری اہم بات عمر گل کے حوالے سے جو گزشتہ تینوں میچز میں ان فٹ دکھائی دیے اور معیار کے مطابق باؤلنگ نہ کر سکے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرفان کے بعد اب عمر گل بھی ان فٹ کھلاڑیوں کی فہرست میں دوبارہ نام شامل کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے، ٹیم میں کئی باصلاحیت نوجوان باؤلرز ہوتے گل کو کھلانے کا خطرہ کیوں مول لیا جارہا ہے؟۔

اب اگلا میچ میزبان بنگلہ دیش کےخلاف ہے جو یقیناً ایک سخت حریف ثابت ہو گی جس کی سب سے بڑی مثال گزشتہ ایشیا کپ کا فائنل ہے اور اس میچ میں فتح پاکستان کے فائنل میں کامیابی کی راہیں ہموار کرے گی۔

اب اس ٹیم کو غلطیوں سے سبق سیکھنے کے ساتھ ساتھ آئندہ ورلڈ کپ کے لیے ایک صحیح کمبی نیشن بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور پھر کیا پتہ یہ ٹیم نئی تاریخ رقم کر دے۔

کارٹون

کارٹون : 28 اپریل 2025
کارٹون : 27 اپریل 2025