!دم ہلاؤ، بھونک کر دکھاؤ

شائع February 28, 2014
حکم عدولی قتل سے بھی بڑا جرم ہے، قاتل فقط ایک جان لیتا ہے نافرمان کلرک پورے آفس کا خانہ خراب کر دیتا ہے
حکم عدولی قتل سے بھی بڑا جرم ہے، قاتل فقط ایک جان لیتا ہے نافرمان کلرک پورے آفس کا خانہ خراب کر دیتا ہے

یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں

جیسے جیسے عام آدمی کا کان بڑا ہوتا گیا، اسے اپنے اندر رک نئی تبدیلی محسوس ہونے لگی، وہ اب ماضی قریب اور ماضی بعید دونوں آوازیں سن سکتا تھا- آوازیں بالکل صاف سنائی دیتی تھیں-

"پڑوسیوں کے ساتھ ذرا تمیز سے رہا کرو، خاص کر سپرٹنڈنٹ صاحب کے ساتھ وہ میرے باس ہیں"، اسے اپنے باپ کی آواز سنائی دی-

"دوسرے لوگوں کو کھاتے پیتے ہوۓ مت دیکھا کرو، اپنی سوکھی ڈال روٹی پر شکر کرو"، اسکی ماں کی آواز آئی-

"ہاتھ نکالو"، اسکے ٹیچر نے چھڑی اٹھاتے ہوۓ کہا-

عام آدمی کو یاد آیا کہ سالوں پہلے کس طرح اسے بھری کلاس میں سب کے سامنے مار پڑی تھی-

"حکم عدولی قتل سے بھی بڑا جرم ہے"، اس کے باس نے کہا،"قاتل فقط ایک جان لیتا ہے نافرمان کلرک پورے آفس کا خانہ خراب کر دیتا ہے"-

یہ آوازیں اس درد سے بھی بدتر تھیں جو اس نے اپنے بائیں کان نے شروع میں محسوس کرنا شروع کیا تھا- چناچہ وہ اپنے محلے کے ڈاکٹر کے پاس دوبارہ گیا اور اسے اپنی کیفیت بتائی-

"کوئی مسئلہ نہیں، آوازیں سننے عام آدمی کو ہوتا ہے"، معالج نے کہا- "یہ ابتدائی اسٹیج ہے اسکا علاج ممکن ہے- نعرے بازی دوسرا اسٹیج ہے جبکہ تقریر کرنا تیسرا- پھر ایک وقت آتا ہے جب مریض یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ آزاد ہے- یہ آخری اسٹیج لاعلاج ہوتا ہے-"

عام آدمی ڈر گیا اور ڈاکٹر کو اس کا جلد علاج کرنے کے لئے منت سماجت کرنے لگا-

"یہ دوا لو"، ڈاکٹر نے اسے آٹھ رنگ برنگی کیپسول دیتے ہوۓ کہا- "دو دن تک چار چار کیپسول لو اور تمہارا بایاں کان بالکل پہلے جیسا ہو جاۓ گا-

جیسے جیسے وہ کیپسول لیتا گیا، عام آدمی کا کان چھوٹا ہوتا گیا اور آخر کار درد بالکل ختم ہوگیا-

تیسری رات عام آدمی چین کی نیند سویا، وہ اب بیمار نہیں تھا-

لیکن یہاں وہ غلطی پر تھا-

چوتھے دن سے اس کے دائیں کان میں تکلیف شروع ہوگئی اس نے وہی دوا لی جو ڈاکٹر نے بائیں کان کا درد رفع کرنے کے لئے اسے دی تھی-

درد تو کم ہوگیا مگر ساتھ ہی اسکا دایاں کان بڑا ہونے لگا- یہ بائیں کان کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھ رہا تھا- دو دن کے اندر اندر وہ ہاتھی کے کان جتنا بڑا ہوگیا- اور آوازیں بھی واپس سنائی دینے لگیں پہلے کی نسبت زیادہ صاف-

"دنیا کے تمام عام آدمی متحد ہیں، آپ کے پاس سواۓ اپنے حق راۓ دہی کے کچھ اور کھونے کو نہیں ہے"، اسکے بائیں کان میں کوئی بار بار ایک مشہور سیاستدان کے الفاظ دہرا رہا تھا جو اسنے کئی سال پہلے سنے تھے-

"اگر آپ نے میرا ساتھ نہ دیا تو یقیناً جہنم کی آگ میں جلیں گے، اگر ساتھ رہے تو شہید کہلائیں گے اور جنت آپ کی منزل ہوگی"، ایک مذہبی رہنما کی آواز سنائی دی-

"آپ میری تقلید کریں یا نا کریں لیکن مجھے اپنا پیسا ضرور دیں- میں اسے آپکی زندگی بہتر بنانے کے لئے استعمال کروں گا"- یہ ایک سماجی مصلح تھا-

جیساکہ اس طرح کے لوگ اپنی بات کہنے کے لئے لاؤڈ سپیکر استعمال کیا کرتے ہیں، چناچہ یہ آوازیں اتنی تیز تھی کہ عام آدمی پاگل ہوگیا اور اپنا سر دیوار پر مارنے لگا-

اس بار اسکی بیوی اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی-

ہمیشہ کی طرح، وہ پہلے ڈاکٹر کے اسسٹنٹ سے ملے اسے فیس ادا کی- ڈاکٹر نے اپنا گلا صاف کیا، دائیں کان کا معائنہ کیا، کان کی لو کو تھپتھپایا، پھر ایک پرچے پر نسخہ لکھتے ہوۓ کہا "اسے میرے اسسٹنٹ کو دکھا دیں"-

اس کے دائیں کان کے لئے اسسٹنٹ نے ایک سیال مادہ دیا- دایاں کان بھی سکڑنے لگا اور صبح تک نارمل ہوگیا- عام آدمی اتنا خوش ہوا کہ اس نے چار فقیروں کو کھانا کھلایا حالانکہ ان فقیروں کی صحت اس سے بہتر ہی تھی-

تین راتوں تک وہ آرام سے سویا-

چوتھے دن سے اسکی ناک بڑی ہونے لگی- جلد ہی وہ ہاتھی کی سونڈ جتنی ہوگئی- اور اس میں بے پناہ خارش ہوتی، خارش تبھی کم ہوتی جب وہ خود کو اپنی سونڈ سے مارتا-

ظاہر ہے یہ ایک عارضی علاج تھا-

آدھ گھنٹے میں خارش دوبارہ شروع ہو جاتی اور پھر سے وہی سلسلہ شروع ہوجاتا-

عام آدمی اپنی ناک تو ایک بڑے تولئے میں لپیٹے دوبارہ معالج کے پاس پہنچ گیا-

ڈاکٹر نے ایک پائپ اسکی ناک میں ڈال کر معائنہ کیا اور کہا "فکر نہ کرو اسکا علاج بھی ممکن ہے"-

اس بار عام آدمی کو کیپسول اور سیال مادہ دونوں ملے اور ڈاکٹر نے تاکید کی کہ جب تک ناک پوری طرح ٹھیک نہ ہوجاۓ دوا جاری رکھنا-

اس میں ایک ہفتے سے زیادہ وقت لگ گیا لیکن ناک نارمل ہوگئی-

اس بار، عام آدمی نے ایک دوست سے ادھار لے کر ایک مزار پر پندرہ لوگوں کو کھانا کھلایا اور دعا کی کہ ناک نارمل ہی رہے-

اور ایک ماہ تک سب کچھ ٹھیک بھی رہا- لیکن پھر ایک نئی مصیبت آگئی- عام آدمی کی دم اگنا شروع ہوگئی- چند گھنٹوں میں وہ ایک نارمل صحت مند کتے کی دم جتنی بڑی ہوگئی تھی- بہرحال اس میں کوئی تکلیف یا خارش نہ تھی-

عام آدمی اس بار ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا بلکہ دم اگنے کے چند گھنٹوں بعد ہی ڈاکٹر خود اس کے پاس آیا-

"کیا تمہاری دم نکل آئی ہے؟" معالج نے پوچھا-

عام آدمی حیران رہ گیا، ڈاکٹر سے یہ بات چھپانا چاہتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اسکی دوائیوں سے کوئی اور بڑی مصیبت نہ کھڑی ہوجاۓ-

"آپ کو کیسے پتا"؟ اس نے پوچھا-

"یہ کوئی انوکھی بات نہیں، میرے تمام مریضوں کی دم نکل آتی ہے"، ڈاکٹر نے جواب دیا-

"پھر تو آپ کے پاس اسکا علاج بھی ہوگا، پلیز میرا علاج کریں، اور اس بار ایسا علاج کریں کہ آگے سے کوئی نئی مصیبت نہ کھڑی ہو"، عام آدمی گڑگڑایا-

"افسوس! اسکا کوئی علاج نہیں"، ڈاکٹر بولا-

"کوئی علاج نہیں؟" عام آدمی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں-

"ہاں کوئی علاج نہیں، لیکن تم فکر نہ کرو تمھارے چاروں طرف بیشمار دمدار آدمی موجود ہیں کیونکہ میں کوئی واحد ڈاکٹر نہیں ہوں جو یہ کام کرتا ہے"، معالج نے بتایا-

"اوہ میرے خدایا ! اب میں کا کروں اسکا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے؟ اب میں باہر کیسے جاؤں؟ " عام آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا-

"اسی لئے تو میں یہاں آیا ہوں، میں تمھیں ایک درزی کے پاس لے جاؤں گا وہ تمھاری دم کے لئے ایسا کوور بناۓ گا کہ تمہاری دم کبھی کسی کو نظر نہیں آۓ گی"، ڈاکٹر نے کہا-

دکان کے آگے ایک چھوٹا سا آفس تھا جہاں عام آدمی کو اپنا اندراج کروانا پڑا- ریسپشنسٹ نے عام آدمی کی تصویری شناخت تیار کی اور اسے کہا کہ یہ کارڈ کمرے کے آخر میں موجود گارڈ کو دکھاۓ-

گارڈ نے کارڈ چیک کیا، پھر اسے ایک بڑے ہال میں بھیج دیا جہاں سینکڑوں درزی بیٹھے ہر شکل سائز اور رنگ کے دم پوش تیار کر رہے تھے-

"دیکھا، تم جیسے ہزاروں آدمی موجود ہیں"، ڈاکٹر نے کہا- عام آدمی کو تھوڑا بہتر محسوس ہونے لگا اور وہ بھی دیگر دمدار آدمیوں کی طرح قطار میں لگ گیا-

کافی انتظار کے بعد ایک بوڑھا شخص ان کے پاس آیا- اپنی عینک درست کرتے ہوۓ ڈاکٹر سے بولا، " یہ تمہارا ایک سو پچپنواں مریض ہے اس سال، شاباش یونہی کام کرتے رہو، جلد ہی اس شہر کے تمام آدمیوں کی دم نکل آۓ گی"-

پھر وہ عام آدمی کو فٹنگ روم میں لے گیا، ڈاکٹر بھی انکے ساتھ تھا- جیسے ہی وہ اندر پہنچے، بوڑھے آدمی نے دروازہ بند کرکے عام آدمی کو اپنی دم ہلانے کو کہا، اوپر نیچے، دائیں بائیں، گول گول-

"شاباش، بہت اچھے "، جب عام آدمی نے اسکی ہدایت پر عمل کیا-

"شاباش، تمہارے تمام مریض کافی فرمانبردار ہیں"، اس نے ڈاکٹر سے کہا-

پھر اسنے پہلے ہی سے تیار ایک دم پوش عام آدمی کی طرف بڑھایا-

"فی الحال، یہ ایک عارضی کوور ہے، ہمیں تمھیں کچھ کرتب سکھانے ہونگے جیسے کس طرح بھونکنا ہے، گیند اٹھا کر لانی ہے، دم ہلانی ہے وغیرہ- اگلے ہفتے آنا اور یاد رہے تم دمدار آدمی نمبر ایک سو پچپن/سی ہو"، اس نے کہا- "سی، تمھارے ڈاکٹر کے نام کا ابتدائی حرف ہے، اپنا نمبر اور ڈاکٹر ہمیشہ یاد رکھنا، ورنہ تمہارا راز کھل جاۓ گا-"

عام آدمی نے اقرار میں اپنی دم ہلائی، اور رجسٹر میں ڈاکٹر کو اپنی کارکردگی پر ایک اور ستارہ مل گیا-

جب وہ دونوں عام آدمی کو چھوڑ کر جانے لگے تو اسنے دیکھا ان دونوں کی بھی دم موجود تھی-

یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں

انگلش میں پڑھیں


انور اقبال واشنگٹن ڈی سی میں ڈان کے نامہ نگار ہیں-

ترجمہ: ناہید اسرار

انور اقبال
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 اکتوبر 2024
کارٹون : 3 اکتوبر 2024