• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پاکستانی بندر روزگار کا ذریعہ

شائع February 25, 2014

پاکستان میں بندروں کا کاروبار آمدنی کا ایک بہترین ذریعہ ہے انہیں اس وقت جنگلات سے پکڑ کر قید کر لیا جاتا ہے جب وہ بچے ہوتے ہیں اور پھر انہیں ٹریننگ دی جاتی ہے، ایک تربیت یافتہ بندر بیس سے تیس ہزار روپے (190 سے 285 ڈالرز) تک کما سکتا ہے۔ 46 سالہ ٹرینر عطاء اللہ نیازی نے بتایا کہ ان کے پاس تین بندر ہیں اور وہ انہیں اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان کا ایک بندر پورے دن میں تقریباً 500 روپے (5 ڈالر) تک کما لیتا ہے، جو ان کے خاندان کے آٹھ افراد کے گزر بسر کا ذریعہ بنتا ہے۔

وہ یہ کام 11 سال کی عمر سے کر رہے ہیں اور پچھلے تین سال سے وہ اپنے بندر کو سلام کرنا، ڈانس کرنا، ہاتھ ملانا اور وہ تمام طریقے سکھا رہے ہیں جس سے ان کا بندر لوگوں کی توجہ حاصل کر سکے اور مزید منافع بخش ثابت ہو۔ نیازی نے بتایا کہ عام طور پر ان کے اونرز شمال مغربی سوات، مری اور اسلام آباد کے باہر کی طرف کا رخ کرتے ہیں تاکہ اس طرح کے بچے تلاش کر سکیں لیکن جانوروں کے حقوق کے عہدیدار عاطف یعقوب بندروں کی پرفارمنس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ان کے مطابق اس طریقے سے بندروں کو لے جانا جنگلات کے قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے انہوں نے بتایا کہ اکثر بندروں کی تربیت کے دوران انہیں چھڑی سے مارا جاتا ہے، گلے میں رسی ڈال کر انہیں بے دردی سے کھینچا جاتا ہے جو ان کے نزدیک زیادتی کا باعث ہے۔