مذاکرات، آپریشن اور میاں نواز شریف
امیر المومنین ثانی میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو خیر سے ابھی "نواں مہینہ" ہی لگا ہے کہ مملکتِ خداداد کے عام لوگوں نے چھاتی مسوسنا شروع کر دی ہے۔ اس بے صبری عوام کو ذرا صبر سے کام لینا ہو گا کہ حکومت چلانا اور باہر بیٹھ کر چلانا دو مختلف عمل ہیں۔
مسلم لیگ (ن) ماضی قریب میں جن معاملات پر شور و غوغا کرتی رہی ہے وہ اب اُسی سے سدھار کے متقاضی ہیں۔ حکومت کو فیصلہ کافی سوچ بچار کے بعد ہی کرنا پڑتا ہے کیونکہ اُن فیصلوں کے نتائج بہت بعد میں دیکھنے اور بھگتنے کو ملتے ہیں۔ جیسا کہ امیر المومنین اول جنرل ضیا الحق کے اقدامات سے ہمیں آج بھرپور "استفادے" کا موقع مل رہا ہے۔ حبیب جالب مرحوم نے تاریکی کو ضیا کہنے سے انکار کر دیا تھا آج زندہ ہوتے تو "شریف" لوگوں کو معلوم نہیں کیا کہنے سے انکار کر دیتے۔
طالبان کہ جن کی پنیری جنرل ضیا الحق (سید منور حسن والے "شہید") نے اپنی نگرانی میں لگوائی تھی آج پھل دینے پر اتر آئی ہے اور یہ پھل اتنا زیادہ ہے کہ دنیا کی چھٹی بڑی مسلح فوج بھی اسے سمیٹنے میں تردد محسوس کر رہی ہے اور اُس کی بھی کوشش ہے کہ اسے ہار پہنا کر حبالہ آئین میں لایا جائے۔
خیال یہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت چونکہ طالبان کے لیے اور طالبان مسلم لیگ (ن) کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں لہٰذا وفاق میں آنے کے بعد شاید عام شہریوں کو خودکش حملوں سے پانچ سال کے لیے ہی سہی مگر نجات مل جائے گی، مگر یہ خیال ہی ثابت ہوا اور طالبان نے پہلے سات ماہ بالعموم اور جنوری میں بالخصوص نہتے شہریوں پر حملوں کی بوچھاڑ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ روز اول سے آج تک اپنے مقصد سے ایک انچ نہیں ہٹے۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں گی مگر وہ دُنیا میں خلافت کے نفاذ تک امن سے نہیں بیٹھیں گے۔
طالبان کی خلافت کے نفاذ میں اس وقت سب سے بڑی تین رکاوٹیں ہیں۔
پہلی، دُنیا کی سات ارب آبادی جو طالبانی شریعت کے مطابق اپنی زندگی نہیں گزارنا چاہتی اور انہیں دہشت گرد گردانتی ہے۔
دُوسری بڑی رکاوٹ امریکہ ہے جو نہ صرف طالبان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے بلکہ دُنیا کا چوہدری ہونے کے ناطے ان کی بیخ کنی کو بھی اپنا فرض سمجھتا ہے۔
تیسری اہم ترین رکاوٹ پاکستانی آرمی ہے جو بہر صورت طالب آرمی چیف کی قیادت میں دُنیا میں خلافت کے نفاذ پر رضا مند نہیں ہو سکتی ہے۔
طالبان کا سب سے مشکل اور ابتدائی ہدف بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح آرمی کی مدد سے انہوں نے رُوس کو افغانستان سے نکال باہر کیا تھا عین اسی طرح وہ اس سے مل کر دُنیا پر خلافت بھی قائم کر سکتے ہیں۔
ضرورت کے تحت آرمی نے جہادِ افغانستان میں تو مجاہدین کا ساتھ کسی حد تک دے دیا مگر اب چونکہ اس قسم کی کوئی ضرورت درپیش نہ رہی ہے چنانچہ دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔ اس پر مجاہد سیخ پا ہو گئے اور آج تک اپنا غصہ کسی نہ کسی طرح اُتار رہے ہیں۔ عام شہریوں پر حملے بھی منتخب حکومتوں کے خلاف اشتعال پھیلانے اور معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے کار آمد ثابت ہو رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ معاملات کو بھی انہی حملوں سے تڑکا لگایا جا رہا ہے۔
دُوسری طرف آرمی اور حکومت اس گوریلا قسم کی جنگ سے تنگ اور بے بس ہو چکے ہیں. تنگ اس لیے کہ اگر چند سال اور یہی صورتحال جاری رہی تو نہ صرف آرمی اور حکومت بلکہ عام لوگ بھی کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جائیں گے اور بے بس اس لیے کہ طالبان مختلف ٹولیوں کی شکل میں ملک کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے ہیں اور انہیں تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنے کے برابر ہے۔ طالبان اکثریتی علاقوں میں بھی وہ عام شہریوں کے ساتھ ہی زندگی گزار رہے ہیں اور آپریشن کی صورت میں گندم کے ساتھ گھن بھی پس جائے گا چنانچہ حکومت اور فوج کی ہچکچاہٹ بجا ہے۔
اُدھر طالبان بھی اس قدر میچور ہو چکے ہیں کہ جیسے ہی آرمی "بوائلنگ پوائنٹ" تک پہنچتی ہے وہ مذاکرات، مذاکرات کھیلنا شروع کر دیتے ہیں چنانچہ حکومت ایک بار پھر روایتی جھانسے میں آکر فریقین کے منت ترلوں پر اتر آتی ہے اور بیچ بچاؤ کا کردار ادا کرنا شروع کر دیتی ہے۔ طالبان کی اس پالیسی کو ایک منظم بلیک میلنگ سمجھئے۔
اگر خیر خیریت رہی تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پاس ابھی وقت بہت ہے چنانچہ اُسے یہ معاملہ شاید اسی دور حکومت میں نمٹانا پڑے۔ اخلاقی طور پر بھی یہ اُسی کی ذمہ داری ہے کیونکہ جنرل ضیا الحق مرحوم کی پالیسیوں کی وارث بہرحال یہی جماعت ہے اور شریف برادران کو اس مقام تک پہنچانے میں بھی مرحوم جنرل کا بڑا ہاتھ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اکثریت اسلام پسند ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ طالبانی اسلام پسند بہرحال اب بھی اقلیت میں ہیں، چنانچہ جمہوری حکومت ہونے کے ناطے مسلم لیگ (ن) کو یہ کڑوی گولی نگلنی ہو گی۔
میاں محمد نواز شریف جیسا کہ پہلے ادوار میں بھی قدم بڑھاتے آئے ہیں، اگر اب کی بار بھی قدم بڑھا دیں تو نہ صرف آرمی بلکہ عوام بھی اُن کے ساتھ قدم بڑھائیں گے لیکن اس کے لیے انہیں اپنی صفوں سے اُن "چند" مومنین کو نکالنا پڑے گا جو پہلے ہی امیر المومنین بنوانے کے چکر میں انہیں مقاماتِ مقدسہ بھجوا چکے ہیں۔
طالبان کی پالیسی واضح ہے۔ اُن سے عارضی طور پر ہتھیار رکھوانے کا کوئی فائدہ نہیں اور اس بات کی بھی گارنٹی نہیں کہ وہ پھر کبھی ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ میاں نواز شریف کے ہاتھ میں اس وقت صرف پاکستان کو ہی نہی بلکہ پوری دُنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی کنجی ہے اور یہ بات بھی طے ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔