بلوچوں سے فوراً بات کی جائے
دہشت گردوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی موجودہ کوششیں جو ملک بھر میں دھماکے کر رہے ہیں اس پالیسی سے انتہائی مختلف ہے جو بلوچستان کے اندرونی دھماکوں کو نظرانداز کرنے کی جانب برتی جارہی ہے جو روز بروز سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔
حکومت، بلوچستان کے بحران کو حل کرنے میں کس حد تک سنجیدہ ہے اس کا اندازہ جلد ہی ہو جائیگا جب جبری گمشدگی کے خلاف لانگ مارچ کرنے والے افراد اسلام آباد پہنچیں گے- اگر وفاقی افسران کا رویہ وہی رہا جو اب تک دیکھنے میں آرہا ہے تو یہ نہ تو مارچ کرنے والوں کے ساتھ اچھا ہوگا اور نہ خود ان کے لئے۔
ان رپورٹوں نے کہ بعض اہلکار اس احتجاج کی میڈیا کوریج کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں خراب تاثر پیدا کردیا ہے- اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ حکومت نے ان اہلکاروں کو اس قسم کا کوئی اختیار نہیں دیا ہے۔
انصاف کے متلاشی یہ باحوصلہ لوگ 110 دنوں سے سڑکوں پر ہیں-----یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے لمبا اور غالباً واحد حقیقی احتجاج ہے- ان کے سوجے ہوئے پیروں پر پڑے چھالے یہ بتا رہے ہیں کہ انھیں اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی سے کتنی تکلیف پہنچی ہے- انھیں یقین ہے کہ ریاستی اہلکار انکی ناقابل یقین اذیتوں کے لئے ذمہ دار ہیں اور ان کے غم و اندوہ کو دور کرنے میں ریاست کی ناکامی نے، کسی بھائی یا بیٹے کی گمشدگی سے بھی زیادہ، ان کے دلوں کو چھلنی کیا ہے۔
ایک دہائی سے جبکہ عوام کو اور افسران کو گمشدگیوں کا علم ہوا یہ مسئلہ روزافزوں، وسیع پیمانے پر دکھ اور تکلیف کا باعث رہا ہے- بلوچ یہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں عدالتوں سے جو کچھ ملا ہے وہ انتہائی ناکافی ہے- اس احساس نے کہ ان کی تکالیف کے ذمہ دار لوگ ملک کی عدالت عالیہ کے احکامات کی تعمیل کرنے بھی انکار کرسکتے ہیں، ریاست سے انکی بیگانگی کے احساس کو اور بھی گہرا کردیا ہے۔
بہت سے واقعات ایسے رونما ہوچکے ہیں جنھوں نے بلوچوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کردیا ہے- 2010 کے تین رکنی جوڈیشیل کمیشن کی سفارشات پر ابھی تک بڑی حد تک عمل نہیں ہوا ہے؛ انٹیلیجنس ایجنسیوں کی سرگرمیوں کو باضابطہ بنانے کے لئے ابھی تک کوِئی قانون نہیں بنایا گیا ہے نہ ہی ان کے اختیارات میں کوئی کمی کی گئی ہے۔
مختلف عوامل کی وجہ سے اس کمیٹی کی اثر آفرینی میں کمی ہوئی جو ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی اور اب حکومت کو اس بات میں دقت پیش آ رہی ہے کہ اسے تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کے لئے کوئی مناسب آدمی ملے- جن لوگوں سے رابطہ کیا گیا وہ غالباً اس ذمہ داری کو لینے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ اسے لاحاصل سمجھتے ہیں جسکی وجہ یہ ہے کہ وہ حکومت کو اس لائق نہیں سمجھتے کہ وہ سیکیورٹی فورسز سے جنکی وہ نازبرداری کرتی رہی ہے جواب طلبی کرسکے۔
یہ خیال کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا مقصد، گمشدگیوں اور غیر قانونی حراستوں کو قانونی درجہ دینا ہے بلوچوں کے خوف میں مزید اضافہ کا سبب بنے گا- مزید یہ کہ خضدار میں اجتماعی قبروں کی دریافت نے -----اور وہاں ہر شخص مافیا کی طاقت سے واقف ہے -----ایک طرح سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بلوچ الزامات کو ثابت کردیا ہے۔
حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی لوگ جنھیں بلوچوں کی طرح تنگ کیا جائے گا انھیں ایک مختصر عرصے کے لئے ہی بہتری کے وعدوں سے بہلایا جا سکتا ہے- بلوچستان کے عوام کا صبر کا پیمانہ کافی عرصہ ہوا لبریز ہوچکا ہے- جب لانگ مارچ کرنے والے لوگ اسلام آباد پہنچیں گے تو حکومت کو بہترین موقع ملے گا کہ وہ نہ صرف گمشدگیوں کے سلسلے کو بند کرنے کے منصوبے کا اعلان کرے بلکہ بلوچستان کے بحران کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششوں کا آغاز کرے۔
یہ بات واضح ہے کہ گمشدگیوں کا مسئلہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ ایک نئے سیاسی عمل سے جڑا ہوا ہے- بلوچ قوم پرستوں کی بغاوت کے رد عمل میں گمشدگیاں ایک نا معقول طریقہ ہیں اور اس کے نتیجے میں اشتعال اور بڑھے گا نہ کہ اسے کنٹرول کیا جا سکے گا- اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد ، بلا امتیاز بلوچ منحرف عناصر سے مذاکرات کرنے کی راہ ہموار کی جائے- طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کے بعد بلوچ قوم پرستوں سے مذاکرات کرنے میں تاخیر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
وفاقی حکومت کو اپنی یہ خام خیالی ختم کرنی ہوگی کہ گمشدگیوں کا مسئلہ یا منحرف قوم پرستوں سے معاملات طے کرنے کا بڑا مسئلہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے- بلوچستان کا بحران ایک قومی مسئلہ ہے- ریاست سے محاذ آرائی کی ابتداء انھوں نے نہیں کی تھی؛ جب بھی کوئی تنازعہ اٹھا انھوں نے غیر منصفانہ تشدد کے خلاف رد عمل کا اظہار کیا- ان کے درمیان موجود دہشتگردوں نے آبادکاروں پر غصہ اتار کر اپنے کاز کو نقصان پہنچایا ہے- ان کے معاشرے میں پیشہ ور لوگوں کی غیرموجودگی نے، نائیوں سے لیکر ٹیچروں اور ڈاکٹروں، کی غیر موجودگی نے، ان کے سماجی نقطہ نظر اور ترقی کو نقصان پہنچایا ہے- یہ سب کچھ اب ختم ہونا چاہیے۔
قوم پرستوں کو مختلف نام دیئے جارہے ہیں جو کسی بھی آبادی کو مشتعل کر سکتے ہیں- آج کی دنیا میں کسی بھی قسم کے مطالبات کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا- کسی بھی مسئلہ پر میز پر بیٹھ کر بات ہو سکتی ہے اور خیر سگالی کا جذبہ ہو تو کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جو عدل و انصاف کے اصولوں کے مطابق طے نہ ہوسکے۔
لیکن سوال لانگ مارچ کے شرکاء سے ان کی بات سننے کا ہو یا بلوچ عوام کے ساتھ امن کی بات چیت کا، اقتدار کے محافظوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وفاق کی ایک اکائی کی حیثیت سے بلوچستان پاکستان کے لئے طاقت کا ایک اہم سرچشمہ ہوگا لیکن ایک ناراض اور بیگانہ بلوچستان اسکی سلامتی کے لئے ایک ممکنہ خطرہ ثابت ہوسکتا ہے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ