بولو جی تم کیا کیا خریدو گے
ہندوستانی ٹیم کے بارے مشہور ہے 'گھر کے شیر، پردیس میں ڈھیر'، ویسے ریکارڈ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے خصوصاً ٹیسٹ میچز میں انڈین ٹیم کا ریکارڈ انتہائی خوفناک منظر پیش کرتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ غیر ملکی سرزمین پر تمام ہی ایشین ٹیموں کی حالت بھیگی بلی کی طرح ہوتی ہے لیکن ہندوستانی ٹیم ہر دور میں بہترین بیٹنگ لائن کے باوجود بدتر ریکارڈ میں سب سے اوپر رہی۔
ہندوستانی ٹیم کی ناکامی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پردیس میں 234 ٹیسٹ کھیلے اور صرف 37 میں کامیابی حاصل کی، 97 ڈرا ہوئے جبکہ بقیہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کی بات کی جائے تو اسے غیر ملکی سرزمین پر 208 میں صرف 52 کامیابیاں ملیں لیکن یہ تناسب ہندوستان کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہے جبکہ سری لنکا کو بھی دیس سے باہر 107 میں سے 52 میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی اس بڑی تعداد میں شکستوں کی اہم وجہ ابتدائی دور میں شکستوں کی بڑی تعداد ہے۔
لیکن اگر دوسری جانب اسی ہندوستانی ٹیم کا اپنی سرزمین پر ریکارڈ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جہاں اس نے 244 میچوں میں 84 کامیابیاں سمیٹیں اور تناسب واضح طور پر پرائی سرزمین پر ریکارڈ سے کہیں بہتر ہے۔
حالیہ دورہ نیوزی لینڈ کے بعد بگ تھری کی سلطنت کے بادشاہ ہندوستان کی کمزوریاں ایک بار پھر بے نقاب ہو گئی ہیں جہاں ایک روزہ میچز کی عالمی چیمپیئن ٹیم لگاتار 14 ٹیسٹ میچز اور تین سال سے پردیس میں فتح کے لیے ترس رہی ہے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں شکست اس لحاظ سے بھی یادگار رہی کہ یہ انڈین ٹیم کی ٹیسٹ کرکٹ میں 100ویں ہار تھی اور اس سیریز میں انہیں شکست کسی ٹیم نہیں بلکہ دراصل نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن میک کولم نے دی جنہوں نے دو ٹیسٹ میچوں کی چار اننگز میں ایک ٹرپل سنچری اور ایک ڈبل سنچری کی مدد سے 535 رنز بنائے۔
اس ٹیسٹ سیریز کے دونوں ہی میچز میں دھونی بہت زیادہ پریشان اور دباؤ میں دکھائی دیے خصوصاً دوسرے ٹیسٹ میں یقینی فتح ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر کپتان اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور کئی مواقعوں غصے کا اظہار کر بیٹھے۔
اس دوران مائیکرو فون نے ان کی گفتگو کو ریکارڈ کر لیا جہاں ایک موقع پر پریشان کپتان نے ساتھی کھلاڑی رویندرا جدیجا کو خراب باؤلنگ کرنے پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'پجارا کو وہاں تالی بجانے کھڑا نہیں کیا'۔
یقینی فتح کی طرف گامزن دھونی الیون کی جانب سے دوسرا ٹیسٹ ڈرا کھیلنے اور سیریز میں شکست کے بعد تمام ہندوستانی کرکٹ حلقوں نے ہندوستانی کپتان مہندرا سنگھ دھونی کو قیادت سے ہٹانے کے مطالبات کرنا شروع کر دیے ہیں۔
واضح رہے کہ ناقدین میں سے اکثر وہ ہیں جو کبھی کپتان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کی قلابیں ملاتے نہیں تھکتے تھے لیکن شکستوں کے طوفان دیکھ کر یہ بھی ہوا کے رخ پر چل دیے۔
دھونی کی قیادت کا جائزہ لیا جائے تو کچھ ان کی کارکردگی اور کچھ قسمت نے بھی ان کا خوب ساتھ نبھایا۔
دھونی نے ابتدائی ٹیسٹ سیریز ہندوستانی سرزمین پر کھیلیں اور پھر نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف ان ہی کی سرزمین پر کامیابی کے ساتھ ہی اپنی کپتانی پر مہر ثبت کر لی۔ اس دوران انڈیا نے انگلینڈ، نیوزی لینڈ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف لگاتار چار سیریز جیتیں۔
تاہم دھونی الیون کی کمزوریوں کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب انڈین ٹیم انگلینڈ اور آسٹریلیا سیریز کھیلنے پہنچی جہاں چار چار میچز کی دونوں سیریز میں مہمان ٹیم کو شکستیں جھیلنا پڑیں، ورلڈ چیمپیئن کپتان ہونے کے باعث سلیکٹرز نے آٹھ شکستوں کے باوجود انہیں ہٹانے کا خطرہ مول نہ لیا اور ویسے بھی پاکستان کی طرح ہندوستان میں کپڑوں کی طرح کپتان تبدیل کرنے کی روایت نہیں لیکن ان دوروں نے راہول ڈراوڈ اور وینکٹ لکشمن جیسے بلے بازوں کے کیریئر کے آگے فل اسٹاپ لگا دیا۔
اب حالیہ شکستوں کے بعد انہیں قیادت سے ہٹانے کا مطالبہ پھر زور پکڑ گیا ہے اور ناقدین نے یہ تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ ہندوستان کے ناکام ترین ٹیسٹ کپتان ہیں جو کسی قطعاً غلط ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق غیر ملکی دوروں میں بطور کپتان سب زیادہ گیارہ شکستیں جھیلنے کے باوجود دھونی کو ناکام کپتان کہنا کسی طور ان کے معیار سے میل نہیں کھاتا۔
دوسری بات یہ کہ ان ناکامیوں کے ذمے دار دھونی نہیں بلکہ کسی حد تک ہنوستانی کرکٹ بورڈ ہے جو اپنے ملک میں بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹیں بناتے ہیں جس کے باعث غیر ملکی دوروں میں بلے باز بیٹنگ کا سبق یکسر بھول جاتے ہیں۔
اب نتیجے پر بے قرار شائقین اور ناقدین نے ویرات کوہلی کو قیادت سونپنے کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن یہ تجویز بھی شاید کارگر ثابت نہ ہو کیونکہ وہ بھول گئے کہ رواں سال ہندوستانی ٹیم نے انگلینڈ اور آسٹریلیا کا دورہ کرنا ہے اور بنیادی مسئلہ حل کیے بغیر کپتان کی تبدیلی بھی شاید اس سے مختلف نتیجہ دے سکے، ہاں لیکن ایسی صورت میں صورتحال مزید ابتر ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔
اس سلسلے میں مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ گزشتہ تین سال سے بیرون ملک ایک بھی سیریز نہ جیتنے کے باوجود ہندوستانی ٹیم آئی سی سی رینکنگ میں دوسرے درجے پر فائض ہے۔
مشہور کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے اس سسٹم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی سی کا رینکنگ سسٹم بہت فیاض ہے، تین سال سے پردیس میں کوئی میچ نہ جیتنے کے باوجود ٹیم نمبر دو پر موجود ہے، اس سے رینکنگ کی اصلیت صاف ہو جاتی ہے۔
یہاں پر ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ ہندوستان کی جانب سے بگ تھری کے منصوبے کا مقصد اپنی ٹیم کی ناکامیوں کو چھپانا تھا لیکن آخر کب تک۔
سابق ہندوستانی بلے باز بشن سنگھ بیدی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ہندوستانی ٹیم کی شکست پر بگ تھری اور ہندوستانی کرکٹ بورڈ(بی سی سی آئی) کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس شکست کا ذمے دار قرار دیا۔
سنگھ نے کہا کہ 'پیسہ بہت سے کرکٹرز اور ووٹ تو خرید سکتا ہے لیکن پیسے سے ٹیم کی کارکردگی نہیں خریدی جا سکتی'۔