• KHI: Maghrib 6:56pm Isha 8:15pm
  • LHR: Maghrib 6:33pm Isha 7:59pm
  • ISB: Maghrib 6:41pm Isha 8:09pm
  • KHI: Maghrib 6:56pm Isha 8:15pm
  • LHR: Maghrib 6:33pm Isha 7:59pm
  • ISB: Maghrib 6:41pm Isha 8:09pm

لانگ مارچ کے شرکاء کو دھمکیاں

شائع February 19, 2014
۔ — آئی این پی فائل فوٹو
۔ — آئی این پی فائل فوٹو

اسلام آباد: لاپتہ بلوچوں کے لیے 27 اکتوبر، کوئٹہ سے لانگ مارچ شروع کرنے والے مختلف عناصر کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کی وجہ سے شاید اسلام آباد نہ پہنچ سکیں۔

ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ انسانی حقوق پر سینیٹ فنکشنل کمیٹی نے لانگ مارچ کے شرکاء کو بھرپور انداز میں خوش آمدید کہنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ان کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ شرکاء کو گجرات شہر میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔

اس پیش رفت کے بعد شرکاء نے گجرات سے کچھ کلو میٹر دور ہی رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے رشتہ دار اسلام آباد جانے کے خواہش مند ہیں اور اس کے لیے وہ کئی ہفتوں سے پیدل سفر کر رہے ہیں۔

مارچ کے سربراہ ماما قدیر نے ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ پچھلے کئی دنوں سے شرکاء کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلنجس ایجنسیوں سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔

قدیر نے بتایا کہ انہوں نے پیر کی رات وزیرآباد میں ایک شخص کی رہائش گاہ پر گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔

'رات کے وقت کچھ لوگ گھر کے دروازے پر جمع ہوئے اور مختلف طریقوں سے ہمیں ہراساں کرنے کی کوشش کی'۔

'ہم رات بھر سو نہیں سکے کیونکہ یہ لوگ ہمیں جان سے مارنے کی باتیں کر رہے تھے۔ وہ لوگ شور مچا رہے تھے جس کی وجہ سے تمام شرکاء ڈر گئے'۔

ماما قدیر نے مزید بتایا کہ منگل کو مارچ کے شرکاء نے گجرات کی جانب سفر کا آغاز کیا۔

' ہم غروب آفتاب سے پہلے گجرات کے قریب پہنچنے پر شہر میں رات گزارنے کا فیصلہ کر رہے تھے کہ ڈی ایس پی کی قیادت میں اچانک ایک پولیس بس نے چناب پل سے پہلے روڈ بلاک کر دیا'۔

'اس موقع پر خواتین پولیس اور کمانڈوز بھی تعینات تھے۔ میں نے ڈی ایس پی سے روکنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اوپر سے حکم آیا ہے'۔

ماما قدیر کے مطابق، انتظامیہ سے طویل مذاکرات اور شرکاء کی اس یقین دہانی کے بعد کہ مارچ پُرامن رہے گا، پولیس نے انہیں آگے جانے کی اجازت دے دی لیکن رات ہونے کی وجہ سے انہوں نے شہر کے باہر قیام کا فیصلہ کیا۔

ماما کا کہنا تھا کہ انہیں ٹیلی فون پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت مارچ میں نو خواتین، تین بچے اور چار مرد شامل ہیں۔

' اگر ہمیں مارچ جاری رکھنے کی اجازت ملی تو ہم اگلے دس دنوں میں اسلام آباد پہنچ کر اقوام متحدہ کے دفتر میں یادداشت جمع کرائیں گے'۔

ماما قدیر نے سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ وہ لاپتہ افراد کے حقوق کے حوالے سے آواز بلند کریں۔

ادھر، گزشتہ مہینے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران خضدار میں اجتماعی قبروں کا انکشاف کرنے والے وائس آف مسنگ پرسنز کے سربراہ نصر اللہ بلوچ نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ انہیں بھی دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

انہوں نے چیف جسٹس سے از خود نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے شرکاء کا تحفظ یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔

'اگر ماما قدیر اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو یقینی طور پر بلوچستان میں صورتحال مزید خراب ہو جائے گی'۔

انہوں نے دعوی کیا کہ غیر مسلح شہری قانون کی عمل داری کے لیے پُر امن مارچ کر رہے ہیں۔

سول سوسائٹی کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے پنجاب اور اسلام آباد پولیس سے شرکاء کو سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ayub Baloch Feb 19, 2014 09:12pm
I like this site

کارٹون

کارٹون : 18 اپریل 2025
کارٹون : 17 اپریل 2025