نقل مکانی کرنے والوں کو گھر واپسی کی اُمید
پشاور: پاکستان کے پُرآشوب قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی دادی امّاں زرماتا بی بی کے نزدیک حکومت اور پاکستان طالبان کے درمیان تاریخی امن مذاکرات سات برسوں سے جاری سورش کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتے۔
ساٹھ برس کی ضعیف خاتون نے اپنے بیٹے اور ایک پوتی دونوں ہی کو اس تصادم میں کھودیا ہے، انہوں نے اپنے گھر کو ملبے تبدیل ہوتے دیکھا اور انہیں 2012ء میں یہاں سے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کے خاندان کے باقی افراد کبھی یہاں لوٹ کر آئیں گے۔
ہنگو کے شمال مغربی قصبے میں اپنے عارضی گھر کے اندر انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’میں اپنے گھر کو یاد کرتی ہوں، مجھے اپنے عزیز یاد آتے ہیں، مجھے سب کچھ یاد آتا ہے۔ امن کے لیے کسی بھی اقدام کا مطلب ہوتا ہے کہ معمول کی زندگی واپس لوٹ رہی ہے۔‘‘
زرماتا بی بی پاکستان کے ان سات لاکھ پچاس ہزار لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہیں ملک کے اندر ہی نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے۔
یہ ملک کے اندر ہی ہجرت پر مجبور ہونے والے ایسے لوگ ہیں، جن کی داستانیں فوجی آپریشن اور خودکش حملوں کی روزآنہ کی کوریج میں شاذونادر ہی شامل ہوپاتی ہیں، جب سے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسند اسلام آباد حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، تب سے ان خودکش حملوں نے ملک کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
حالانکہ مبصرین وزیرِ اعظم نواز شریف کے اعلان کردہ مذاکرات کے نتائج پر شک و شبے کا اظہار کررہے ہیں، جو گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے، لیکن ان مذاکرات سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے کچھ افراد کے دل میں امیدوں کے چراغ روشن کردیے ہیں، جو برسوں کی صعوبت کے بعد اچھی خبر سننے کے لیے بے چین ہیں۔
ایک جانب سے طالبان اور دوسری طرف سے فوج کی گولہ باری کے درمیان پھنسے ہوئے ان میں سے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ امن مذاکرات ان کے لیے کسی قسم کے پائیدار حل کا ایک بہترین موقع ہیں۔
قبائلی علاقے کے ڈسٹرکٹ خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک ستاون سالہ بزرگ حاجی نامدار خان کہتے ہیں کہ ’’مایوسی اسلام میں گناہ ہے‘‘، وہ پشاور کے مضافات میں نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے لیے قائم کیے گئے جلوزئی کیمپ میں 2009ء سے مقیم ہیں۔
انہوں نے کہا ’’آخر کار مذاکرات ہی ایک واحد حل ہے۔ میں پُرامید ہوں کہ حالیہ امن عمل سے کوئی حل برآمد ہوجائے گا۔‘‘
موسم کی سختی اور دیگر صعوبتیں:
پاکستان کے اندر ہی نقل مکانی پر مجبور ہونے والوں کی حالتِ زار سے قوم اس وقت واقف ہوئی، جب 2009ء میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد بہت سے لوگوں کو سوات کی دلکش وادی سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا تھا، جو اسلام آباد سے محض 125 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اندرون و بیرونِ ملک سے اکھٹا ہونے والے عطیات کے ذریعے انہیں خوراک، عارضی پناہ گاہیں، اور دیگر اشیائے خوردونوش فراہم کی گئیں، اور تصادم کےخاتمے پر نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے بہت سے افراد اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اگرچہ سوات میں لڑائی ختم ہوچکی ہے، پاکستانی فوج اب بھی ملک کی نیم خودمختار قبائلی پٹی میں 2007ء سے جاری اندرونی طور پر پروان چڑھنے والی بغاوت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس قبائلی پٹی کو امریکا القاعدہ کا عالمی ہیڈکوارٹرز خیال کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہاں خیبر کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں پاکستانی طالبان اور حکومت کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے درمیان گزشتہ ایک سال سے لڑائی جاری ہے۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق تقریباً سات لاکھ پچاس ہزار افراد پناہ گزینوں کے لیے قائم کیے گئے کیمپوں میں مقیم ہیں، اکثر کرائے کے گھروں یا دوستوں و رشتہ داروں کے ساتھ آباد علاقوں میں رہ رہے ہیں۔
ایک تخمینے کے مطابق چالیس ہزار کے قریب ایسے بدقسمت لوگ ہیں جو پشاور، کرّم قبیلے کے ڈسٹرکٹ اور ہنگو میں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ان کیمپوں میں جہاں تک نظر دوڑائیں دور دور تک خیمے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پانی اور بجلی کا انتظام نہیں ہے اور یہاں کے رہائشیوں کو موسم گرما کی جھلسادینے والی گرمی برداشت کرنی پڑتی ہے، جب درجۂ حرارت پچاس سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، اس سے پہلے موسم سرما کے دوران انہیں نقطۂ انجماد صفر سے نیچے کی سخت سردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں اپنے دوست کو یاد کرتا ہوں:
تازہ ترین نقل مکانی پچھلے مہینے کے آخر میں شروع ہوئی، جب لگ بھگ پندرہ سو خاندانوں، تقریباً 13 ہزار افراد نے طالبان باغیوں کے خلاف شروع ہونے والے ایک فوجی حملے کے خوف سے شمالی وزیرستان میں اپنے دیہاتوں کو چھوڑ دیا تھا۔ حالانکہ یہ خطرہ عملی طور پر ظہور پذیر نہیں ہوسکا۔
فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ایک سینئر اہلکار ارشد خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکومت زیادہ تر خاندانوں کی مارچ تک اپنے گھروں کو واپسی کے لیے کام کر رہی ہے۔ نقل مکانی پر مجبور ہونے والوں کو حکومت پچیس ہزار روپے کی امدادی رقم بھی دے گی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اقدام سے کچھ لوگوں کے دلوں میں گھروں کو واپس لوٹنے کی گہری خواہش میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
خیبر سے آنے والے ایک پندرہ برس کے لڑکے طاہر خان، جو اب اس وقت پشاور میں مقیم ہیں، کہتے ہیں ’’میں واپس جانا چاہتا ہوں، میں اپنے اسکول اور اسکول کے ساتھیوں کو دیکھنا چاہتا ہوں، مجھے اپنے پسندیدہ کھیل کرکٹ کی یاد آتی ہے، مجھے اپنے دوستوں کی یاد آتی ہے۔‘‘
لیکن بہت سے دیگر لوگوں کو امن کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر اب بھی شبہ ہے، وہ دونوں فریقین کے درمیان گہری خلیج اور ماضی کی ناکامیوں کا حوالہ دیتے ہیں۔
طالبان کے مطالبات میں پورے ملک میں شریعت کا نفاذ اور امریکی ڈرون حملوں کا خاتمہ شامل ہیں، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ حکومت اور فوج ان شرائط کو پورا کرے گی۔
اس کے علاوہ ماضی میں کی جانے والی مقامی سطح کے معاہدے ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں،جن میں سب سے زیادہ اہم 2009ء میں ہونے والا معاہدہ ہے، جب دونوں فریقین کے درمیان وادیٔ سوات میں جنگ بندی ہوئی تھی، لیکن یہ معاہدہ طالبان کی جانب سے لوگوں کے سرقلم کیے جانے اور خواتین کو کوڑے مارے جانے کے بعد توڑ دیا گیا تھا۔
سینتالیس برس کے ایک پناہ گزین سخی اللہ بھی ہیں، جنہوں نے اس تصادم کے دوران اپنی بہن کو کھو دیا تھا، اور اب وہ کوہاٹ کے ایک گاؤں جرمہ میں ایک کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں ان امن مذاکرات سے پُرامید نہیں ہوں۔‘‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’اس طرح کی تمام کوششیں ماضی میں ناکام ہوچکی ہیں۔ اگر میں واپس جاتا ہوں، تو میں یا تو طالبان کی جانب سے ہلاک کردیا جاؤں گا یا پھر سیکیورٹی فورسز کے کسی آوارہ بم کے گولے کا شکار ہوجاؤں گا۔‘‘
سخی اللہ نے کہا ’’مجھے خوف ہے کہ میں کبھی واپس نہیں جاسکوں گا اور دوبارہ کبھی اپنے گاؤں کو نہیں دیکھ پاؤں گا۔ مجھے امید نہیں ہے کہ آئندہ چند سالوں میں امن بحال ہوجائے گا۔‘‘