• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

لاپتہ فرد: پولیس رپورٹ میں آئی ایس آئی کی جانب اشارہ

شائع February 13, 2014
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: پنجاب پولیس نے خاور محمود کی گمشدگی کے بارے میں تفتیش کے بعد ان کے جبری طور پر لاپتہ ہونے کے سلسلے میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پر الزام عائد کیا ہے۔ؕ

بہاولنگر کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اختر اسماعیل کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کہا گیا ہے کہ خاور محمود کے انکل عبدالحیٔ جو پانچ دن تک آئی ایس آئی کی حراست میں رہے تھے، نے بھی یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے بھتیجے کو آئی ایس آئی نے ہی اُٹھایا تھا۔

پنجاب کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مصطفٰے رمدے نے یہ رپورٹ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین ججوں پر مشتمل ایک بینچ کے سامنے جائزے کے لیے پیش کی، انہوں نے کہا کہ مکمل تفتیش اور جمع ہونے والے شواہد یہ اشارہ کرتے ہیں کہ خاور محمود شاید انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں۔

اس بینچ نے اکیس سالہ خاور محمود کے والد خالد محمود کی ایک درخواست کو سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔ خاور کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بہاولنگر ڈسٹرکٹ کے علاقے فورٹ عباس میں ایک ڈسٹری بیوشن کمپنی سے گزشتہ سال چھبیس جون کو اُٹھایا تھا۔

خاور کی اہلیہ سعدیہ پروین نے انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی آمنہ مسعود سے مدد کے لیے رابطہ کیا تھا۔ خاور کے لاپتہ ہونے سے صرف چھ ماہ پہلے ان کی شادی ہوئی تھی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے دورانِ سماعت درخواست کی کہ پنجاب پولیس کی جانب سے جمع کرائی جانے والی اس رپورٹ کی روشنی میں وزارتِ دفاع اور انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ نئے سرے سے تحقیقات کی جائے۔ؕ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے حکام نے اس بات کی تردید کی تھی کہ خاور ان کی تحویل میں ہیں۔

مصطفٰے رمدے نے عدالت کو مطلع کیا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس نے بھی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے درخواست کی گئی تھی کہ اس معاملے کو ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے ساتھ فوری توجہ دی جائے۔

خاور کے والد نے تسلیم کیا کہ ان کا بڑا بیٹا عامر محمود لشکر طیبہ کا ایک سرگرم کارکن تھا۔ اس کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے گرفتار کرکے اس کو مجرم قرار دینے کے بعد عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد میں پشاور ہائی کورٹ نے اس کو بری کردیا تھا، اس کے بعد سے وہ اپنی بیوی کے ساتھ اب تک لاپتہ ہے۔

عامر کی رہائی کے ایک سال کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خاور کا تعاقب شروع کردیا تاکہ اس کے بڑے بھائی عامر کو تلاش کیا جاسکے۔

عبدالحیٔ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انہوں نے چارسدہ جیل میں اپنے بھتیجے عامر سے ملاقات کی تھی، جہاں وہ عمرقید کی سزا کاٹ رہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ عامر کو آئی ایس آئی نے گرفتار کرلیا اور فورٹ عباس کے گورنمنٹ ہائی اسکول کے اندر قائم اس کے دفتر میں لے جایا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بعد میں اس کو اوکاڑہ لے جایا گیا، جہاں اس پر تشدد کیا گیا۔

عبدلحیٔ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ خاور کو آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اٹھایا تھا، اس لیے کہ وہ عامر کو تلاش کررہے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے سال تین ستمبر کو فورٹ عباس پولیس اسٹیشن کے نزدیک ایک تہہ خانے سے کسی نامعلوم شخص کا ڈھانچہ برآمد ہوا تھا، بعد میں اس ڈھانچے اور خاور کے خاندان کے افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کے لیے کہا گیا تاکہ اس لاش کی شناخت ہوسکے۔ خاور کے والد کے خون کا نمونہ پنجاب فارنسک سائنس ایجنسی کو بھی بھیجا گیا، لیکن اس کی رپورٹ کا اب بھی انتظار کیا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے محکمہ داخلہ سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ خضدار میں کچھ قبروں سے برآمد ہونے والی تیرہ نامعلوم افراد کی لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج مقامی پولیس سے حاصل کرکے فراہم کیے جائیں۔ ان میں سے کچھ لاشوں کی لاپتہ افراد کی فہرست میں سے شناخت ہوگئی ہے۔

مصطفٰے رمدے نے عدالت کو بتایا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کے لیے قائم کیا گیا انکوائری کمیشن بھی اس معاملے کو دیکھ رہا ہے اور اس کی طرف سے آئی ایس آئی اور ایم آئی کو ہدایت کردی گئی ہے کہ اگر ان کے پاس خاور کے بارے میں کوئی معلومات ہے تو اسے فراہم کی جائے۔

اس کیس کی سماعت اب دو ہفتوں کے بعد ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024