طالبان کے مؤقف کی مذمت کرتے ہیں: سینیٹر مولانا غفور حیدری
اسلام آباد: حزبِ اختلاف نے پیر کے روز حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات پر اپنے جواب کے بارے میں ایوان کو آگاہ کرے اور یہ بھی کہا کہ حالیہ دہشت گرد حملوں میں اگر طالبان ملؤث نہیں ہیں تو حکومت لازماً ان حملوں کے پسِ پردہ قوتوں کو شناخت کرے۔
سینیٹ میں سیکیورٹی صورتحال پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ”حکومت، اپوزیشن اور پوری قوم مذاکرات چاہتے ہیں۔ پھر وہ کون ہے جو اس کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے؟۔“
یہ پہلا موقع تھا کہ جمیعت علمائے اسلام ف نے طالبان کے فلسفے سے ناصرف خود کو قطعی طور پر علیحدہ کرلیا، بلکہ اس کے علاوہ ایوان کے اندر اس کی مذمت بھی کی۔
جے یو آئی ایف کے مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ”جو کچھ بھی طالبان کا مؤقف ہے، ہم نے ماضی میں بھی اس کی مذمت کی ہے، اور آج بھی اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں زیادہ تر مذہبی علماء بھی ان کی طرزفکر سے متفق نہیں ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ”شریعت پہلے ہی آئین کا حصہ ہے۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ وہ آئین کو تسلیم نہیں کرتا۔“
لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ہے، اور اسلامی نظریاتی کونسل کو قانون سازی کے ضمن میں اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا۔
پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر رضا ربّانی نے کہا کہ مذاکرات دائیں بازو اور شدت پسند دائیں بازو کے نمائندوں کے درمیان ہورہے ہیں، اور اس میں دائیں بازو، اعتدال پسند اور جمہوری قوتوں کی کوئی نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ امن مذاکرات کے معاملے پر پارلیمنٹ کا اِن کیمرہ مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔
قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق نے اراکین سینیٹ کو یقین دلایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات آئین کے دائرہ کار کے اندر منعقد کیے جائیں گے۔
تبصرے (1) بند ہیں