روہی کہانی ۔ 2
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔
یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں
کوری والا ڈھار -- 12 اپریل 2002
فرید کے روہی میں جیپ اتری تو آسمان کی روشنی بھی زمین کے اندھیروں میں ڈھل گئی۔ سولہ کھوئی سے سورج کے ساتھ شروع ہونے والا سفر، گگلاں والا ٹوبہ سے ہوتا ہوا کوری والی ڈھار پہ ختم ہوا۔ ڈھار کے اکلوتے درخت پہ دو چڑیوں نے بھی رین بسیرا کر رکھا ہے۔ آج رات ہم تینوں یہیں رکیں گے۔
صحرا کی زندگی کی ایک اپنی شریعت ہے جو مذاکرات کے بغیر ہی نافذ ہو جاتی ہے۔ کشادہ دل اور سادہ طبیعت کے حامل ان لوگوں کے لہجے میں وہ کھلاپن سنائی دیتا ہے کہ آنکھیں تکلف دیکھنے کو ترس جاتی ہیں۔ اونٹ کے نمکین گوشت اور کھارے پانی پہ پروان چڑھے اکہرے بدن والے ساربان ہوں یا شوخ رنگ پہننے والی آبنوسی عورتیں، ہوا میں ہلکورے لینے والی گفتگو میں کوئی لوچ ہے جو صحرا میں ہی سمجھ آتا ہے۔
سنا ہے جب انسان کی خواہش، ریت بچھانے اور آسمان اوڑھنے سے آگے بڑھی تو ان پوندوں کو بھی گھر بسانے کا خیال آیا۔ سوال رہائش کا نہیں بلکہ سرشت کا تھا۔ یہ آدم زادے اس مٹی کی محبت میں گرفتار تو تھے مگر اس سے بندھنا نہیں چاہتے تھے۔ زمین انہیں کہیں جانے نہیں دیتی تھی اور گھر کا آزار، یہ پالنا نہیں چاہتے تھے، سو ایسے میں ایک درمیان کا راستہ نکالا گیا۔
دائرے کی صورت سرکنڈوں کی دیوار اٹھائی گئی اور اندر ایک بانس پہ من چھٹیوں کی چھت ڈال کر اسے گھر کہا جانے لگا۔ مقامی زبان میں گھوپا کہلانے والی اس ایک کمرے کی جھونپڑی کی بھی اپنی ہی ایک دنیا ہے۔ کھونٹی سے لٹکے پرانے کپڑوں، زمین میں دبائے گئے پانی کے بھرے مٹکوں، طاقچوں میں رکھے خشک راشن اور ڈھیر ساری یادوں سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مکینوں کو گئے زیادہ دیر نہیں ہوئی مگر اندر بسی اداسی کی خوشبو بتاتی ہے کہ ان ریگزاروں سے انسان کا گزر ہوئے، ایک جگ بیت چلا ہے۔ بستیوں کی طرز پہ آباد، لکڑی اور پرالی کے ان گھونسلوں میں شائد یہ بارش صفت سیلانی ہی رہ سکتے ہیں۔
چولستان میں پہلی بارش کے برستے ہی سب چھوٹے بڑے تال پانی سے بھر جاتے ہیں۔ ساون کی یہ اکا دکا برساتیں، ہفتوں مخلوق کی پیاس بجھاتی ہیں اور یہاں زندگی کا سلسلہ چلتا ہے۔ پانی خشک ہوتے ہی ہجرت سے سرشار یہ خانہ بدوش، صحرا کو خیر آ باد کہہ کر نئی منزلوں کا رخ کرتے ہیں، رہے گھوپے تو وہ ایک بار پھر انتظار کے حوالے ہو جاتے ہیں۔
جب شتر بان چلتے چلتے تھک جائیں اور نصف النہار سورج ان کے ماتھے پہ پیاس ٹانک دے تو سامنے کسی ٹوبے کے دامن میں چند گھوپوں کا نظر آنا معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ پپڑی جمے ہونٹوں سے یہ لوگ ان جھونپڑیوں کے اندر تو جاتے ہیں مگر پانی پئے بغیر ہی واپس آ جاتے ہیں۔ بھرے ہوئے مٹکے، خود سے زیادہ پیاسوں کے لئے سنبھال رکھنے والوں کا ایثار، ان گھوپوں کو خالی نہیں ہونے دیتا۔
ریت کے انہی نشیب و فراز میں ایک نشان نواں کوٹ کا بھی ہے، جہاں سے چار رستے چہار سمت جاتے ہیں۔ ایک پگڈنڈی بجنوٹ کو نکلتی ہے، ایک راہگزر شہر کی خبر لاتی ہے اور باقی راستے دائیں بائیں قائم چھوٹی بڑی ڈھاروں کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔
نوکوٹ کے ایک طرف صدیوں پرانا قلعہ ہے جو کسی زمانے میں دریا کے کنارے کنارے بنے خان گڑھ، اسلام گڑھ اور خیر گڑھ کے قلعوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ مغلوں کے تعمیر کردہ اس قلعے کی اب صرف فصیلیں، برج اور کہانیاں باقی رہ گئی ہیں، محراب، ہاتھی گیٹ اور سرنگیں تو شائد بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہی ختم ہو گئے تھے۔ دوسری طرف ایک مسجد ہے جو ہوبارہ کا شکار کھیلنے والوں کے پیسے سے آباد ہے۔
قلعے اور مسجد کے درمیان سانس لیتا یہ نخلستان ، وقت اور مقام کی قید سے جیسے بچھڑ سا گیا ہے۔ ریت کی ان راہداریوں کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا تالاب ہے جہاں سے روہی کے باسی، رینجر کے سپاہی، چولستان کے مویشی اور ریت کے پودے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ پانی کی مستقل موجودگی سے یہاں سبزہ بھی ہے اور زندگی بھی، مگر اس جگہ کی اصل خوبصورتی کچھ اور ہے۔
نواں کوٹ کے سب درختوں کے پتے، اس صفائی سے کٹے ہیں گویا کسی نے ایک پیمانے سے کاٹے ہوں۔ پہلے پہل تو اس راز کی وجہ سمجھ نہیں آتی پھر مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ ان درختوں کے پتے، جانوروں کی چارہ گری کے سبب کٹے ہیں۔
نواں کوٹ کے اس شہر جیسے چوک میں رینجر کے سپاہی بھی آتے جاتے ہیں اور گھوپوں کے پوندے بھی، مگر اس نگر کا مستقل باسی، حق نواز خطیب ہے۔ ہر روز، صبح سویرے ابو ظہبی پیلس آفس سے ایک گاڑی اس عبادت کیش کو نواں کوٹ لے آتی ہے۔ پہاڑ جیسے دن کو پانچ الہامی حصوں میں بانٹ کر گزارنے والا یہ امام، خدا کے بندوں کو اس کا پیغام پہنچا کر شام ہوتے ہی شہر لوٹ جاتا ہے۔
پیلس آفس سے ملنے والے 8160 روپے کے عوض نماز پڑھانے کے ساتھ ساتھ حق نواز یہاں کا اکلوتا کریانہ سٹور بھی چلاتا ہے ۔ حلوے اور شین قاف سے بہت دور، اس مرد حق کا مسح تو راسخ العقیدہ مسلمانوں کی مانند ہے مگر گفتگو میں کہیں بھی یہ زعم نہیں ہے کہ اس نے اس صحرا کو اپنی ایمان یافتہ زندگی کے بیس سا ل دئیے ہیں۔ گاندھی چشموں کے پیچھے چھپی گہری آنکھیں، ایک ایسے عقیدے کی داستان سناتی ہیں جو کسی توبہ کے وجود سے پیدا ہوا تھا۔
آج تک نہ تو کبھی مسجد کی دوسری صف بھری ہے اور نہ دکان کا گلہ، مگر جس طرح حجرے کے باہر ڈاچی کا بچہ ایک نہ نظر آنے والی آنول کے ذریعے، اس کے پہلو سے بندھا ہے ویسے ہی اس خطیب دوکاندار کا توکل اپنے رب سے پیوستہ ہے۔ نمازی اور گاہک آئیں یا نہ آئیں، حق نواز مسجد اور دوکان کھولنے ضرور آتا ہے۔
نوٹ : روہی کی یہ دوسری کہانی، برسوں پہلے لکھی گئی ڈائری کا ہی ایک صفحہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سیاہی تو پھیکی پڑ گئی ہے مگر یاد کے روزنامچے میں وہ خنک اور خاموش رات اب بھی ویسی ہی موجود ہے۔
(جاری ہے)
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen
تبصرے (1) بند ہیں