• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

مستقبل میں توانائی کی طلب پر تشویش

شائع February 4, 2014
بہت سے ایشیائی ممالک میں شمسی توانائی مستقبل میں توانائی کا سب سے زیادہ مطلوبہ ذریعہ ہوگی۔ —. فائل فوٹو
بہت سے ایشیائی ممالک میں شمسی توانائی مستقبل میں توانائی کا سب سے زیادہ مطلوبہ ذریعہ ہوگی۔ —. فائل فوٹو

کراچی/لاہور: حال ہی میں کیے گئے ایک سلسلہ وار سروے کے مطابق آبادی میں اضافے اور بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2030ء تک پہنچتے پہنچتے دنیا کو چالیس سے پچاس فیصد سے زیادہ توانائی، پانی اور غذا کی ضرورت ہوگی۔

بجلی اور صاف پانی جیسے اہم وسائل کے استعمال پر زبردست دباؤ پڑے گا۔ پانی بجلی کی پیداوار اور غذائی پیداوار کے لیے پانی اور بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔

نو ایشیائی ملکوں میں تھائی لینڈ، فلپائن اور ہندوستان سرِفہرست ہیں، کہا جارہا ہے کہ وہ آبادی میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے بجلی، پانی اور غذا کی مزید طلب کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں بجلی کی ضروریات کے بارے میں بہت زیادہ فکرمند ہیں۔

اس سروے میں اس خطے کے نو علاقوں اور اکتیس شہروں میں آٹھ ہزار چار سو چھیالیس افراد کا احاطہ کیا گیا، جواب دینے والوں میں اسّی فیصد نے کہا کہ مستقبل میں بجلی کے لیے فکرمندی بھی اس طرح بڑھتی جائے گی جیسے کہ تعلیم اور ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں ان کی اہمیت کے لحاظ سے اضافہ ہورہا ہے۔

سروے میں زیادہ ترلوگوں نے بجلی کی کمی اور اس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ان کے ملکوں پر سنگین اثرات مرتب ہونے کی توقع ظاہر کی۔

اکیانوے فیصد نے تھائی لینڈ اور نوّے فیصد نے بجلی کی قلت کو دیگر مسائل سے زیادہ اہمیت دی۔ ہندوستان میں اکیانوے فیصد اور سنگاپور نے انیاسی فیصد نے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو، نواسی فیصد نے ویتنام پانی کی قلت اور چھیاسی فیصد نے انڈونیشیا میں غذائی قلت کو اہم قرار دیا۔

اس سروے میں نشاندہی کی گئی کہ توانائی کے وسائل کا مستقبل ایشیا میں ملا جلا ہے، بہت سے ملکوں میں قدرتی گیس اور شمسی توانائی کا راستہ اپنایا جارہا ہے۔

بہت سے ملکوں میں شمسی توانائی مستقبل میں توانائی کا سب سے زیادہ مطلوبہ ذریعہ ہوگی، جس میں سنگاپور کو چھیاسی فیصد نے، تھائی لینڈ کو تراسی فیصد نے اور ہندوستان کو ستتّر فیصد نے شامل کیا۔

برونائی میں ستاسی فیصد نے مستقبل میں توانائی کےحصول کے لیے سب سے زیادہ اہم ذریعہ قدرتی گیس کو قرار دیا، اس کے بعد باون فیصد نے سنگاپور، انڈونیشیا اور ہندوستان میں ترالیس فیصد کو شامل کیا گیا۔

سروے میں جواب دینے والوں نے صنعت، حکومت اور عوام کے درمیان تعاون کو اہمیت دینے کےساتھ ساتھ شفاف توانائی کے لیے ترغیبات اور اختراعات کو مستقبل کی توانائی کی ضرورتوں کے خدوخال کے لیے بہت زیادہ اہم قرار دیا۔

پاکستان میں جوابات دینے والے دو ہزار افراد کے پچاس فیصد نے موثر حکومتی پالیسی کو مستقبل میں توانائی کے حل کی تعمیر کے لیے نہایت اہم عنصر قرار دیا۔

ایشیا کے لیے مستقبل کے توانائی کے چیلنجز اور سروے کے نتائج پر جمعرات چھ فروری کو کاروباری برادری، حکومت، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی سے وابستہ فکری رہنماؤں کے ایک اجتماع میں گہری بحث کی جائے گی۔

تین سو شرکاء پر مشتمل اس پروگرام میں دنیا میں بڑھتے ہوئے پانی، غذا اور تونائی کے چیلنجز پر غور کیا جائے گا۔ یہ پروگرام فلپائن کے شہر منیلا میں شیل ایکو میراتھون ایشیا 2014ء کے تعاون کے ساتھ منعقد ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024