جہادی خنّاس
ہمارا قومی بیانیہ (National Narrative) ایک سازش کے گرد گھومتا ہے اور وہ سازش ہے پاکستان کو توڑنے کی.
بنیادی طور پر یہ بیانیہ پہلے مسلم لیگ کی حمایت میں ایجاد کیا گیا۔ تقسیم ہند سے پہلے نعرہ تھا مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ تقسیم کے بعد مسلم لیگ ریاست کی قومی جماعت قرار پائی جس نے مذہبی قوتوں کے سہارے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کو ریاستی جبر کا سامنا کرپڑا۔
مسلم لیگ مخالف جماعتوں پر اسلام دشمن، غداری اور سیکورٹی رسک کے لیبل لگے۔ امن و جمہوریت کی بات کرنے والے غدار ٹھہرے۔ ویسے بھی مسلمان اور جمہوری مزاج دو متضاد چیزیں ہیں۔ آج قوم اسی مسلم لیگی سیاست کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔
قیام پاکستان سے ہی ملک میں مذہبی منافقت کا آغاز ہوگیا تھا۔ ہندؤوں اور سکھوں کو قتل کرنے کے بعد اپنے تئیں ایک پاک ملک حاصل تو کرلیا گیا لیکن پاک ملک میں جلد ہی ہر فرقے کو اپنے علاوہ دوسرا کافر نظر آنا شروع ہوگیا۔ مسلم لیگ نے اقتدار پر قابض رہنے کے لئے ایک مخصوص مکتبہ فکر کی سرپرستی شروع کردی جو اپنے علاوہ تمام فرقوں کو کافر سمجھتا ہے۔
ویسے تو ہر اسلامی فرقہ اپنے علاوہ دوسرے کو کافر سمجھتا ہے لیکن جب کسی فرقے کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوجائے تو اس کے نتائج انتہائی خوفناک ہوتے ہیں اور پاکستانی عوام اسی سرپرستی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
آنے والے سالوں میں کافر گری کے کاروبار میں کمی کی بجائے شدت سے اضافہ ہوا۔ 1947ء میں کشمیر کے جہاد سے لے کر2013ء تک ہمسایہ ممالک میں جارحیت کی نہ ختم ہونے والی داستانیں ہیں۔ لیکن ریاست کوئی سبق حاصل کرنے کی بجائے آج بھی اپنے ہمسائیوں کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ باقاعدہ فوج کے ساتھ ساتھ ہم نے اس کے متوازی جہادی لشکر بھی تیار کر لیے ہیں۔ لشکر جھنگوی ہو یا لشکر طیبہ یہ آج کے البدر اور الشمس ہیں۔
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا جو اپنے قیام سے ہی 'نام نہاد خطرے' کا شکار ہوگیا۔ لہٰذا اسے بچانے کے لئے ریاست نے جہادی بیانیہ کو فروغ دیا۔ جنگجو ہیرو پروموٹ کئے۔ اس کی ابتداء نصاب سے ہوئی اور پھر نسیم جحازی اینڈ کمپنی نے اس بیانیے کو مضبو ط کیا۔
اس بیانیے کو مضبوط کرنے میں پہلے مسلم لیگ اور پھر ڈکٹیٹر شپ کا بھی اہم کردار ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں اسلام پسندوں کو میڈیا میں نہ صرف کھپایا گیا بلکہ ان کا جہادی بیانیہ عوا م پر مسلط کیا گیا۔
پاکستانیوں کے ساتھ دہرا ظلم ہوا ہے، ایک طرف نصاب میں جنگجو ہمارے ہیرو قرار پائے تو دوسری طرف اخبارات اور ٹی وی میں افغانستان کی پراکسی وار لڑنے والوں کو ہیرو بنایا گیا۔ سوات میں جب ملا فضل اللہ اپنے پیر جما رہا تھا، سی ڈیز کی دکانوں کو دھماکے سے اڑایا جارہا تھا تو ہمارے اینکر پرسن اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے گن گارہے تھے۔
اخبارات اور ٹی وی میں مجاہدین کو ہیرو بنایا گیا، جنہوں نے مخالفت کی انہیں جہادی پریس نے 'غدار' قرار دیا۔ آج ہم نیلسن منڈیلا کو تو یاد کر سکتے ہیں مگر جہادی پریس باچاخان، ابوالکلام آزاد اور مہاتما گاندھی کا نام نہیں لے سکتا۔ امن و جمہوریت کی بات کرنے والی ان شخصیات کی جدوجہد کی ہمارے جہادی بیانیے میں کوئی اہمیت نہیں۔ جو سیاسی جماعتیں جہادی بیانیہ کے خلاف جاتی ہیں ان کو بھی مسلسل طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جہادی بیانیہ جمہوریت کے بھی خلاف ہے۔ این آر او، میثاق جمہوریت کا ہی تسلسل تھا جو فروری 2006 میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان طے پایا تھا جس کے تحت ملک میں جمہوری عمل کو بحال کرنا اور ایک دوسرے پر سیاسی انتقام لینے کے لیے مختلف ادوار میں بنائے گئے مقدمات کا خاتمہ تھا۔
افسوس کہ مسلم لیگ نے بھی اس معاہدے سے روگردانی کرتے ہوئے این آر او کی مذمت کرکے ایک طرف جہادی قوتوں کی ہمددریاں حاصل کیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے ذریعے حکومت کو گرانے میں اپنی بلا واسطہ کوششیں جاری رکھیں۔
این آر او واحد قانون تھا جس کے ذریعے نہ صرف پاکستان میں پہلی دفعہ پرامن انتقال اقتدار ممکن ہوا بلکہ ملک کو واپس جمہوریت کی پٹڑی پر ڈالا جا سکا۔ یہ این آر او ہی تھا جس کے تحت نوازشریف ملک واپس آئے اور سیاسی عمل میں حصہ لیا وگرنہ اس سے پہلے تو نام نہاد آزاد عدلیہ کے ہوتے ہوئے انہیں واپس سعودی عرب دھکیل دیا گیا تھا۔
یہ جہادی بیانیہ ہی ہے جس نے پچھلے پانچ سال تک این آر او کے خلاف ڈرامہ رچایا۔ چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے مطالبے کیے اور گڈ گورننس کی بڑھکیں ماریں مگر آج مسلم لیگ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے حواریوں کی لوٹ مار (کالا دھن) کو جائز قرار دے دیا تو کوئی احتجاج نہ ہوا جبکہ جہادی اسٹیبشلمنٹ اور اس کی پروردہ عدلیہ ابھی بھی جہادی بیانیے کی مخالف جماعتوں کو کرپشن کے شواہد نہ ہونے کے باوجود ان پر سے مقدمات ختم کرنے کو تیار نہیں۔
الیکٹرانک میڈیا میں دہشت گردوں کو اپنا نقطہ نظر بتانے کے نام پر ان کے خیالات باربار عوام کے کانوں میں انڈیلے جاتے ہیں۔ آج بھی لال ٹوپی اور کالی و سفید پگڑی والے ہمارے چینلز کی ریٹنگز بڑھاتے ہیں۔
شاید پاکستان واحد ملک ہو گا جہاں آزادی اظہار رائے کے نام پر دہشت گردوں کا نقطہ نظر باربار سنوایا جاتا ہے اور پھر ان کا سوفٹ امیج پروموٹ کیا جاتا ہے۔ ابھی کوئی ایک دو ماہ قبل جیو ٹی وی نے ایک دن جیو کے ساتھ لشکر طیبہ کا (حافظ سعید جسے پوری دنیا دہشت گرد قرار دے چکی ہے کا) سوفٹ امیج پرموٹ کیا اور اس پروگرام کے میزبان بھی آزادی صحافت پر لیکچر دیتے ہیں۔
جہادی بیانیے کو ختم کرنے میں جمہوریت کا کردار بہت اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں الیکٹرانک میڈیا اور اس کے پروردہ دانشوروں کو بھی یہ بات سمجھانی ہوگی کہ پاکستان میں امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک سرکاری طور پر مذہب کو سیاست سے الگ نہیں کیا جاتا۔ ویسے ان لوگوں سے یہ توقع کرنا بھی بھینس کے آگے بین بجانے والا معاملہ ہے۔
تبصرے (9) بند ہیں